ایک محفل میں حضرتِ مرزا داغؔ دہلوی شعر پر شعر کہہ رہے تھے۔ ان کی روانی اور برجستگی دیکھ کر ایک صاحب نے کہا: ’’خدا جانے آپ کس طرح شعر کہہ دیتے ہیں، ذرا سی دیر نہیں ہوتی اور آپ جھٹ سے شعر کہہ دیتے ہیں؟‘‘
داغؔ نے پوچھا: ’’بھئی، تم شعر کس طرح کہتے ہو؟‘‘
انہوں نے جواب دیا: ’’حضرت، ہم تو کسی خاص وقت میں پلنگ پر لیٹ کر، حقہ سامنے رکھ کر فکرِ سخن کیا کرتے ہیں، کبھی اِس طرف کروٹ لی، کبھی اُس طرف، کبھی لیٹے، کبھی بیٹھے، تب کہیں کوئی شعر نکلتا ہے۔‘‘
یہ سن کر داغؔ کہنے لگے: ’’تم شعر کہتے نہیں بلکہ جنتے ہو۔‘‘
(ڈاکٹر علی محمد خان کی کتاب کِشتِ زعفران مطبوعہ الفیصل پہلی اشاعت فروری 2009ء، صفحہ نمبر 74 سے انتخاب)