ذوق، مذاق (Taste) خالصاً فنی اصطلاح ہے اور ’’انسانی باطن کی ایسی کیفیت ہے جو جمال کا ادراک کرتی ہے۔‘‘
کروچے نے ذوق کو محض داخلی کیفیت قرار دیا ہے لیکن رچرڈز نے ذوق کو داخلی بھی کہا ہے اور خارجی بھی۔ کالرج کا خیال ہے کہ ذوق محض مسرت و غم کے احساس کا نام نہیں بلکہ وہ معروضی اشیا کے عقلی ادراک کا بھی حامل ہوتا ہے۔ کہیں کہیں کالرج ذوق کو عقل وحواس کے مابین ایک صلاحیت بھی خیال کرتا ہے۔
فن کے صنعتی پہلو تعمیمات مہیا کرتے ہیں، لیکن ذوق ان سے انحراف بھی کرتا ہے۔
ذوق کو داخلی سطح میں دیکھا جائے، تو تسکین اس کا وہ واحد خاصا ہے جو ایک لحاظ سے اس کا نتیجہ بھی ہے۔ موزونیت اور لطافت کو اس کے خارجی عناصر کہیے۔
ذوق ترتیبِ جمال اور تخلیق ِ فن کے عمل میں فن کار کا رہبر بھی ہے اور تخلیق کار کا رویہ بھی متعین کرتا ہے۔
ایک سطح پر آکر ذوق اور وجدان ہم معنی ہو جاتے ہیں۔ دونوں اصطلاحیں انسانی احساس سے متعلق ہیں اور اس کے موضوع، تجربے کی فضیلت کو ظاہر کرتے ہیں۔
مولانا رومی کا یہ مصرعہ فرد کے ذوق کے تنوع کا اظہار کرتا ہے :’’طعمۂ ہر مرغکے انجیر نیست‘‘
(پروفیسر انور جمال کی تصنیف ’’ادبی اصطلاحات‘‘ مطبوعہ ’’نیشنل بُک فاؤنڈیشن‘‘، صفحہ نمبر 105 سے انتخاب)