تصوّف (Mysticism) روحانیت کی اصطلاح ہے۔ فرد کے روحانی تجربے کو ’’تصوّف‘‘ کہتے ہیں۔
تصوّف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ صاحبِ حال کے تجربے میں آتا ہے۔ شریعت وہ عمرانی قوانین ہوتے ہیں جن کے تجربے میں تمام انسان شامل ہیں لیکن صوفی کے حال میں دوسرا شخص شامل نہیں۔ یہ فرد کی مکمل تنہائی کا تجربہ ہے، جو ناقابلِ بیان ہے، یعنی اس تجربے کا ابلاغ (Communication) نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ ’’ابلاغ‘‘ عمرانی عمل ہے۔
پیغمبر بھی صوفی ہوتا ہے لیکن وہ تنہائی کے روحانی تجربے کے بعد واپس عمرانیات (معاشرہ) میں آتا ہے۔ جب کہ صوفی روحانی تنہائی میں ہی رُک جاتا ہے۔
مسیحی تصوف میں ’’فلاطینوس‘‘ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے جب کہ مشرقی تصوف میں علامہ ابنِ عربی نے ’’وحدت الوجود‘‘ اور اس کے بعد مجدد الف ثانی نے ’’وحدت الشہود‘‘ کا نظریہ پیش کیا۔
تصوّف کا لفظ ’’صوف‘‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں ’’اُون کا کھردرا لباس۔‘‘ یہ لباس عیسائی راہب پہنتے تھے۔ ان کی تقلید میں مسلمان زُہاد بھی یہی لباس پہننے لگے۔
مشرقی تصوف کی پرورش خراسان میں ہوئی جو بدھ مت کا بڑا مرکز تھا۔ تصوف خراسان سے عراق اور مصر میں پھیلا۔ بارہویں صدی عیسوی میں صوفیا کے فرقے قادریہ، سہروردیہ، چشتیہ، شاذلیہ اور نقش بندیہ مشہور ہوئے۔ زیادہ تر صوفیا نے جذب و مستی، وجد و حال اور زاویہ نشینی کو صوفی کے لیے لازمی قرار دیا۔ کشف، اشراق، حلول، سریان، تجلی، وصل، جذب، وجد، حال، قال، حسنِ ازل، عشقِ حقیقی، عشقِ مجازی اور حبس دم، تصوف ہی کی اصطلاحیں ہیں۔ (پروفیسر انور جمال کی تصنیف "ادبی اصطلاحات” مطبوعہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن، صفحہ نمبر 75 سے انتخاب)