آغازِ تاریخ سے پہلے شکار کے دور کا انسان ایک مجموعی اشتراکیت کا پابند رہا ہے۔ تاریخِ انسانی بتاتی ہے کہ جب انسان غاروں اور پتھروں کے دور سے آگے بڑھا اور اس نے اوزار بنا لیے، تو وہ شکار کو بھونتے وقت دائرے کی شکل میں پورے قبیلے کے ساتھ خوشی سے ناچتا تھا۔ پھر سب مل کر اس شکار کو کھاتے، یہ اشتراکیت کی ابتدائی صورت تھی۔ گویا وسائل کی ایسی منصفانہ تقسیم جس میں کسی بھی فرد کا استحصال نہ ہو۔
سوشلزم (اشتراکیت) کی تعریف کچھ یوں کی جاسکتی ہے: ’’شخصی ملکیت کے تصور اور اجتماعی ملکیت کا فلسفہ جس میں معاشرے کے افراد میں ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو، اشتراکیت کہلاتا ہے۔‘‘
ہوسِ زر، خود غرضی اور ملکی وسائل پر قبضے کی خواہش اشتراکی فلسفے کے عملی نفاذ کے راستے میں ہمیشہ رکاوٹ رہے ہیں۔ زرعی اور صنعتی انقلاب میں بھی تمیزِ بندہ و آقا برقرار رہی۔ مزدور صنعت کار کے ہاتھوں اور مزارعہ جاگیردار کے ہاتھوں استحصال کا شکار رہا۔ اہلِ مغرب کے خرد مندوں نے انفرادی استحصال کو اب قومی استحصال میں بدل دیا۔ قوموں کو سیاسی آزادی تو مل گئی، لیکن اکثر اقوام ابھی تک معاشی آزادی کے لیے ترستی ہیں اور مغرب کے معاشی شکنجے میں اس طرح جکڑی ہوئی ہیں کہ ان کا نکلنا محال ہے۔
دنیا کے بڑے بڑے فلسفیوں نے شخصی املاک کو معاشرے کی برائیوں کی جز قرار دیا۔ چناں چہ کارل مارکس سے بہت پہلے اہلِ حکمت (فلسفی) نے مقتدر طبقے اور مذہبی پیشواؤں کے گٹھ جوڑ میں چھپی مکاری کی طرف اشارے کیے جس کی بدولت طاقتور طبقہ مزدوروں کی کمائی پر عیش کرتا ہے۔ آدم سمتھ اورڈے کارٹ نے محنت کو تمام دولت کا منبع قرار دیا۔ کارل مارکس کا اہم کام یہ ہے کہ اس نے اشتراکیت کے مثالی تصور کو نہ صرف قابلِ عمل بنایا بلکہ اسے ایک سائنٹفک اور منطقی نظام بنا کر پیش کیا۔ (پروفیسر انور جمال کی تصنیف ’’ادبی اصطلاحات‘‘ مطبوعہ ’’نیشنل بُک فاؤنڈیشن‘‘ صفحہ 39-40 سے انتخاب)