ماچس کی تیلی کا سر تو ہوتا ہے، مگر دماغ نہیں۔ لہٰذا چھوٹی سی رگڑ پہ بھی یہ آگ بگولہ ہوجاتی ہے۔ اسی لیے بعض اوقات یہ چھوٹی سی بھڑک بڑی بڑی تباہیوں اور بربادیوں کا باعث بن جاتی ہے۔
اس چھوٹی سی ماچس کی تیلی میں ہمارے لیے بھی بہت بڑا سبق موجود ہے۔ ہم سب کے پاس بھی سر ہیں اور ماچس کی تیلی کے برعکس دماغ بھی۔ لہٰذا ہماری ذہانت یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ردّ عمل کے بجائے صبر اور تحمل سے کام لیں اور یہی عادت منظم لوگوں کا وطیرہ ہے۔ صبر سے کام لیں گے، تو تیلی کی طرح جل کر راکھ نہیں ہوں گے۔
(احمد فرہاد کی ترجمہ و تالیف شدہ کتاب ’’کامیابی‘‘ مطبوعہ ’’رُمیل ہاؤس آف پبلی کیشنز‘‘ پہلی جلد، صفحہ نمبر 228 سے انتخاب)