قاضی گُل مولوی کی شعلہ بیانی پورے علاقے میں مشہور تھی۔ وہ گلی گلی کوچہ کوچہ گھومتا اور مساجد میں جہاد کے موضوع پر ایسی شعلہ بیانی سے کام لیتا کہ نوجوانوں کا خون جوش مارتا، اور وہ خودپر قابوپانے میں ناکام دکھائی دیتے۔ نہ صرف قاضی گل ملا کے گاؤں بلکہ آس پاس کے گاوؤں میں بھی ایک اکیلا اس کا گھر تھا جہاں کوئی ’’شہادت‘‘ کے مرتبہ پہ فائز نہیں ہوا تھا۔ باقی مولوی صاحب کی برکت سے ہر گھر اور خاندان کو یہ سعادت نصیب ہوئی تھی۔ اب مولوی صاحب کی عمر 70 کا ہندسہ عبور کرچکی تھی۔ یہ جہاں بھی تقریر کرتا، تو زار و قطار روتے ہوئے کہتا: ’’بچپن ہی سے میری خواہش تھی کہ مجھے شہادت کی موت نصیب ہو، لیکن یہ خواہش خواہش ہی رہ گئی۔‘‘ اردگرد بیٹھے سامعین بھی یہ سن کر آب دیدہ ہوجاتے، لیکن کسی کو بھی یہ کہنے کی جرأت نہ ہوتی کہ ’’مولوی صاحب! شہادت تو آپ کے گھر آنے سے رہی اور میدانِ جنگ میں جانے کی آپ زحمت نہیں کرتے۔‘‘
وقت کا پہیہ گھومتا رہا، ملکی سیاست کا پھانسا پلٹ چکا تھا۔ مولوی صاحب کی تقاریر کا سنہری دورگزر چکا تھا۔ اس کے چندے کا ’’کاروبار‘‘ بھی ٹھپ ہوکر رہ گیا تھا۔ اب وہ گھر سے باہر کم ہی نکلتا۔ اس کے دونوں بیٹے اور اکلوتی بیٹی والدہ کے ساتھ فرانس میں مقیم تھے۔ بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد اچھی اچھی نوکریاں حاصل کر چکے تھے، لیکن ان کے اپنے والد بزرگوار سے اس بات پر تعلقات کشیدہ تھے کہ مولوی صاحب نے ان کی ماں کی موجودگی میں دوسری شادی کی تھی۔ مولوی صاحب کی دوسری بیوی شادی کے چوتھے روز رات کی تاریکی میں گھر سے نکلی تھی، اور اس کے بعد اس کی زندگی اور موت کاکچھ پتا نہ چل پایا تھا۔ا ب مولوی صاحب ضعیف ہوگئے تھے، لیکن اکثر اس سے ملنے انجان قسم کے لوگ آیا کرتے اور ڈھیر سارا وقت ساتھ گزار کر چلے جاتے۔
آج مولوی صاحب کو گھر سے نکلے دو دن ہوچکے ہیں۔ اڑوس پڑوس کے بڑے بوڑھوں نے طبیعت پوچھنے کی غرض سے مولوی صاحب کے گھر کا رُخ کیا، لیکن جیسے ہی وہاں پہنچے، تو گھر کے دروازہ پر تالا لگا ہوا تھا۔ ٹھیک تین دن بعد تمام نیوز چینلوں پر کچھ ایسی بریکنگ نیوز چل رہی تھی کہ ’’مجاہدِ اسلام حضرت مولانا قاضی گل کو نامعلوم افراد نے بے دردری سے قتل کرکے لاش قریبی نہر میں پھینک دی ہے۔‘‘
(نوٹ:۔ شاعر، ادیب اور نثر نگار عطاء اللہ جان ایڈووکیٹ کے غیر مطبوعہ پشتو افسانوں سے انتخاب)

………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔