گذشتہ دنوں میں اور بخت زر دریاب صاحب اِک چھوٹے سے کام کے سلسلے میں علاقائی الیکشن کمشنر (سوات) جاوید اقبال خٹک سے ملنے اُن کے آفس گئے۔ تعارف کے بعد موصوف نے میرے اندر کے ادیب کا جائزہ لینے کے لیے تابڑ توڑ سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ ظاہر سی بات ہے حمید بابا کی نازک خیالی، قلندر مومند کی ثقالت اور غنی خان کا فلسفہ ہم جیسی موٹی عقل والوں کے بس کی بات نہ تھی۔ اس لیے ہماری تو ٹائیں ٹائیں فش ہوگئی۔ ایسے میں وہ داتا گنج بخش اور پھر بلھے شاہ کی کافیوں کا پوچھ کر مزید مشکل میں ڈال گئے۔ ہم کسی طرح انہیں اردو ادب کی طرف لانا چاہتے تھے اور وہ آنا نہیں چاہتے تھے۔ بس غالبؔ کا ہلکا سا اشارہ کرکے تعلیمی نفسیات کی شاخوں کی طرف چلے گئے۔ یوں سمجھیں کہ ہم رعایتی نمبروں کے ساتھ ہی پاس ہوئے ہوں گے۔ بقول سعد اللہ شاہ
میری ہمت کہ اُس کی محفل سے
جسم اپنا اُٹھا کے لایا ہوں
پون گھنٹا بھر کی ملاقات کے بعد انہوں نے اپنی کتاب تحفتاً دی اور چائے پلانے کے بعد گیٹ تک چھوڑنے بھی آئے۔ عصری حوالے سے آپ الیکشن کمشنر ہیں جب کہ ادبی دنیا میں لوگ آپ کو ’’نادان خٹک‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ اے وی ٹی کے امان اللہ ناصر کا کہنا ہے کہ ’’نادان واقعی نادان ہے‘‘ لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے۔ موصوف انگریزی ادبیات کے ساتھ فلاسفی اورسیاسیات میں ماسٹر ڈگری ہولڈر ہیں، جب کہ پشتو تو جیسے اُن کے گھر کی باندی ہو۔ کیوں نہ ہو کہ اُن کی رگوں میں بھی تو اپنے دادا (خوشحال بابا) ہی کا خون دوڑ رہا ہے۔ بہ ظاہر نادان نظر آنے والے نادانؔ بلا کے ذہین انسان ہیں۔ شاید ان جیسوں ہی کے لیے غالبؔ کہہ گئے تھے کہ
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
اب آتے ہیں اُن کی کتاب کی جانب۔ 128 صفحات پر مشتمل خوبصورت ’’گیٹ اَپ‘‘ والی اس کتاب کا نام ’’ناکڑدے‘‘ ہے، جسے ’’اعراف پرنٹرز پشاور‘‘ سے زیورِ طباعت سے آراستہ کیا ہے، جب کہ ’’سوات ادبی کلتوری نڑیوالہ جرگہ‘‘ نے سوات میں اس کی پُروقار تقریبِ رونمائی بھی کی۔ شاعری کی اس کتاب میں پابند نظمیں، غزلیں اور گیت شامل ہیں۔ دیباچہ میں فیض الوہاب فیض لکھتے ہیں کہ ’’آپ کی غزل قلبی واردات کی ترجمان ہے، تو نظم عصری حالت کی تنقید۔‘‘
ہمایون ہمدرد لکھتے ہیں کہ ’’آپ کی شاعری تغزل اور مقصدیت کا مرقع ہے۔‘‘
جب کہ لائق زادہ لائقؔ کا کہنا ہے کہ ’’آپ کی شاعری میں مزاحمت، انا، خودی اور موسیقیت موجود ہے۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ذہن کو تخلیقی عمل کے ساتھ ملانے کا عمل بڑا کٹھن اور جان گسل ہوتا ہے، اور اس سے بھی مشکل کام اس میں شوخی، شگفتگی اور برجستگی کے ساتھ نغمگی اور موسیقیت لانا ہوتا ہے۔ نادانؔ کے کلام میں نہ صرف شوخی، شگفتگی اور برجستگی ہے بلکہ غنایت اور موسیقیت کا بھر پور جلترنگ بھی موجود ہے، مثلاً:
تہ چی مڑوند تاوہے بنگڑی بہ مات کی یارہ
جوڑ بہ فسات کے یارہ پریدہ چی زمہ
مور بہ می مڑہ کڑی د زڑہ غم بہ راتہ زیات کی یارہ
جوڑ بہ فسات کے یارہ پریدہ چی زما
یہی وجہ ہے کہ رحیم شاہ سے لے کرستارہ یونس، وصال خیال، دلراج، خالد ملک، سعدیہ شاہ، گل رخسار، شہسوار اور شاکر زیب جیسے گلوکاروں نے آپ کے کلام کو سازو آواز کے جادو سے مزید دو آتشہ بنا رکھا ہے۔ فلمی دنیا سے بھی آپ کے کلام کی بازگشت سنائی دیتی رہتی ہے۔
آپ کی شاعری میں داخلیت کے ساتھ خارجیت اور مزاحمت کے رنگ بھی موجود ہیں۔ آپ کو پشتونوں کی حالت زار، پسماندگی اور محرومیوں کا غم بھی تڑپاتا ہے جب کہ طبقاتی کشمکش، عدم مساوات اور استحصالی نظام پہ بھی آپ کا دل کڑھتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ تڑپ کر کچھ ایسے شعر بھی کہہ جاتے ہیں:
د غریب سرمن اوباسی پہ ولاڑے
پہ ہر سیز دے خخے کڑی دی چی داڑے
یا یہ کہ
توازن چی د ژوندون پکے یو نہ وی
سماج نہ وی د دوزخ یو نمونہ شی
اور یہ بھی کہ
پہ ظاہر خو دے ہندو مسلمانیگی
پہ باطن د شرمخانونہ کم نہ اے
2009ء کے تباہ کن حالات نے پختونخوا کے ہر ذی شعور کو جھنجوڑ کے رکھ دیا تھا۔ آپ جیسا حساس شخص بھلا کیوں چپ رہتا۔ آپ کے اندر کی ہوک ’’درد او چغہ‘‘ نامی نظم کی صورت میں ظاہر ہوکر سامنے آتی ہے، لکھتے ہیں:
داسے سلئی، داسے وبا او طوفانونہ راغلل
زما پہ کور، زما پہ کلی سیلابونہ راغلل
تا چی پہ سرو وینو جوڑ کڑے وو محل ظالمہ
نہ دے کردار، نہ دے گفتار، نہ دے عمل ظالمہ
دغہ چی ناست وے د سرو گلو گلستان کی داسی
سومرہ غرور، سومرہ پہ ناز، سومرہ پہ شان کی داسی
ستا د عمل پہ سوب داسے عذابونہ راغلل
زما پہ کور زما پہ کلی سیلابونہ راغلل
غزل کی ترکیب میں بحر، آہنگ، ترنم اور غنائیت کے ساتھ ساتھ علامت، اشاریت، رمزیت اور ایمائیت کے تمام ڈانڈے بھی تغزل کے لیے لازمی خیال کیے جاتے ہیں۔ نادان کی غزل میں یہ تمام فنی محاسن اپنے خاص دوربست کے ساتھ موجود دکھائی دیتے ہیں۔
لکھتے ہیں:
زما گلچیں گلچیں، گل رنگ جانانہ
د خائستونو رنگ کے رنگ جانانہ
ستا خوشبوئی تہ خدائیگو چر تہ رسی
مشک و عنبر، لاچی لونگ جانانہ
سپرلے سپرلے، مستی مستی شی مینہ
تہ چی بنگڑو تہ ورکڑے شڑنگ جانانہ
داسی چی سترگے پہ مکیز توروے
قسم دے ما بہ کڑے ملنگ جانانہ
آج کی نشست میں بس اتنا ہی۔ آخر میں (جملہ معترضہ ہی سہی) لگے ہاتھوں اِک گلہ بھی کرتے جائیں کہ سر جی! جس ’’اصول‘‘ کے تحت آپ نے ہمارا (جائز) کام نہیں کیا تھا، اُسی ’’بے اصولی‘‘ کے تحت آپ کے ماتحتوں نے پچاس فی صد لوگوں کے کام کیے تھے۔ بقول منٹو (ہم لنڈورے ہی بھلے) آپ کے اشعار آپ ہی کی نذر
چی پہ زڑہ ئے وی یوہ او پہ خلہ بلہ
داسے خلقو سرہ ژوند مہ کڑہ ہیس کلہ
چی پہ سختہ کے لاس راکاگی پہ شاشی
بیا بہ ئے نوم پہ خلہ وانہ خلمہ ہیس کلہ
د کردار پہ زیور ڈکہ جولئی گرزہ
بل انسان مہ گنڑہ خاوری او خزلہ

……………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔