ڈاکٹر صاحب کا اصل نام فضل رحیم ہے۔ ادبی حلقوں میں ڈاکٹر دیدارؔ یوسف زے کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سوات کے علاقہ نیک پی خیل تحصیل کبل، کالا کلے میں 20 جنوری 1970ء کو مرحوم و مغفور شاہ بالی جان کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی کا رُخ کیا۔ چند سال تک وہاں رہے۔ بعد میں خیبر میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ ایم بی بی ایس کیا اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں ہاؤس آفیسر بن گئے۔ بعد میں علاقے کے چند ہسپتالوں میں فرائض سرانجام دیتے رہے۔ آج کل سپیشلائزیشن کے سلسلے میں مع اہل و عیال کینڈا میں مقیم ہیں۔
دیدارؔ یوسف زے پیشے کے لحاظ سے ایک عام ڈاکٹر ہیں لیکن حقیقی معنوں میں آپ ایک اعلیٰ پائے کے شاعر، ادیب، لکھاری اور دانشور ہیں اور اس لیے میری خاطر قابلِ ذکر شخصیت ہیں۔ یہ چند سطور آپ کے نام اس لیے لکھتا ہوں کہ اس واسطے آپ کا ذکر ہوجائے۔
ڈاکٹر صاحب کوئی عام شاعر نہیں بلکہ بہت اچھے شاعر ہیں۔ آپ کا وسیع مطالعہ ہے۔ آپ حساس اور دور اندیش ہیں۔ پشتو زبان و ادب سے اتنا لگاؤ ہے کہ انتہائی قلیل عرصے یعنی سات سال میں چھے کتب کو زیورِ طبع سے آراستہ کر چکے ہیں۔

ڈاکٹر دیدار یوسف زے کی شائع شدہ کتب۔ (فوٹو: ڈاکٹر یوسف زے کی فیس بُک وال سے)

سائنس اور میڈیکل کے طالب علم ہوتے ہوئے آپ کا ادبی مطالعہ اتنا وسیع ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ ہر قسم کے ادبی موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرسکتے ہیں۔ مطالعے اور فطری ذہانت کے بل بوتے پر بہت اچھے نقاد بھی ہیں اور اس حوالے سے اتنے پکے، سچے اور جرأت مند ہیں کہ ہر کسی کے حوالے سے کھل کے بات کرتے ہیں۔آپ کو مَیں دانشور اس لیے مانتا ہوں کہ آپ ہر برائی اور مسئلے کو ایک نئی اور جداگانہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ نت نئے موضوعات پر شعر لکھتے ہیں۔ مَیں مایوسی اور بیزاری کے اس دور میں ڈاکٹر صاحب کو امید کی کرن سمجھتا ہوں۔ کیوں کہ آپ حقیقی معنوں میں ایک سچے شاعر اور فنکار ہیں۔
چوں کہ ڈاکٹر صاحب بابائے غزل مرحوم امیر حمزہ خان شنواری بابا سے متاثر ہیں اورآپ سے بہت عقیدت رکھتے ہیں، اس لیے دیدار صاحب بھی اپنے قارئین کو ’’حقیقی پشتونولی‘‘ پر قائم رہنے کی ترغیب دیتے ہیں اور پختونولی کی بنیادی اور اہم صفات پیدا کرنے کے خواہاں ہیں۔
اپنے کلام میں جگہ جگہ پختونوں کے اچھے رسم و رواج اور صفات کا ذکر کیا ہے۔ اس طرح ان کی کمزوریوں اور غلط رسومات کو کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ اپنے پختون بھائیوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ایک غیر شرعی اور غیر اسلامی رسم ’’سورہ‘‘ کو بھی موضوعِ نظم بنایا ہے اور نا پسندیدہ قرار دیا ہے۔ اب ذیل میں آپ کی چھے کتب کا مختصر تعارف پیش کرنا چاہتا ہوں۔
آپ کی پہلی کتاب 1995ء میں ’’تورے خاورے‘‘ کی نام سے منظر عام پر آئی۔ کتاب کا انتساب دیدار صاحب نے اپنے چھوٹے بھائی مرحوم سیف الرحمان کے نام سے کیا ہے جن کی اچانک موت نے آپ کو انتہائی صدمہ پہنچایا ہے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی ابتدائی شاعری ہے بلکہ میرے خیال میں جب آپ میڈیکل کالج میں طالب علم تھے، تو اس وقت کی شاعری ہے۔ چوں کہ جوانی بھی تھی اور سفر کی ابتدا بھی، اس لیے اس میں زیادہ سنجیدگی اور پختگی نہیں لیکن پھر بھی یہ اچھی کتاب اب ناپید ہے۔
دوسری کتاب ’’ژوندے وَزَر‘‘ کے نام سے چھپی۔ سنِ اشاعت 1999ء ہے۔ کتاب کو مٹی سے منسوب کیا ہے اور یہ پختونخوا کی مٹی سے پیار کی ادا ہے۔ اس کتاب پر شاعر اور ادیب لائق زادہ لائقؔ اور پروفیسر اباسینؔ یوسف زے کے معقول تاثرات قلم بند ہیں۔ فکر و فن دونوں حوالوں سے اس کتاب میں پختگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس دور کے بعد دیدارؔ صاحب کے فن اورخیالات میں عجیب قسم کی پختگی اور شائستگی پیدا ہوئی ہے۔ علمی اور ادبی حلقوں میں ڈاکٹر دیدارؔ کا نام زیر بحث آنا شروع ہوا۔ ادبی مجالس اور تقاریب میں ان کا نام احترام سے لیا جانے لگا۔

تیسری کتاب ’’راخکلی غشی‘‘ جون 2000ء میں آئی۔ اس کتاب کو موصوف نے اپنے روحانی استاد حمزہؔ شنواری اور فنی و تکنیکی استاد پروفیسر اباسینؔ یوسف زے کے نام سے منسوب کیا ہے۔ اس نایاب فن پارے پر مرحوم ڈاکٹر اعظم اعظمؔ اور محمد حنیف قیسؔ کے مقدمے درج ہیں۔
چوتھی کتاب ’’نسکورے لپے‘‘ ستمبر 2000ء میں آئی۔ یہ جاپانی نظم ہائیکو کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کو شاعر نے لائق زادہ لائقؔ، محمد حنیف قیسؔ اور مرحوم فیضانِ سوات فضل الرحمان فیضانؔ کے نام کیا ہے۔ اس کتاب پر پروفیسر اظہار اللہ اظہارؔ کا مقدمہ درج ہے۔ ہر چند کہ پشتو میں ہائیکو پر محدود کام ہوا ہے لیکن قابلِ ستائش ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی اس کتاب کے بارے میں میرا دعویٰ ہے کہ ابھی تک پشتو ہائیکو میں اس معیار کی دوسری کتاب نہیں۔ کہاجاتا ہے کہ ہائیکو میں مزاحیہ اور سادہ مضامین باندھے جاتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب کی مذکورہ کتاب پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ موصوف نے عجیب فنی ترکیب سے انتہائی سنجیدہ مضامین سلیقے سے ہائیکو نظم میں سموئے ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ محض تین سطور میں کتنے موضوعات بیان ہوسکتے ہیں، لیکن فنی مہارت اور سخن کی ریاضت شرط ہے۔ اس کتاب کی خوبیوں اور فنی محاسن پر جتنا بھی لکھا جائے، کم ہے۔ یہ ہائیکوز انتہائی سنجیدہ اور مقصدی ہیں۔

ڈاکٹر دیدار یوسف زے کا ایک ہائیکو۔

پانچویں کتاب ’’زرغون زیری‘‘ بچوں کی نظمیں ہیں۔ اس کتاب پر سال اشاعت 2001ء درج ہے۔ یہ وطن کے ہر بچے کے نام منسوب ہے۔ کتاب میں اباسینؔ یوسف زے، لائق زادہ لائق اور محب اللہ شوق کے تاثرات شامل ہیں۔
اس حوالے سے پشتو ادبیات میں بہت کم کام ہوا ہے۔ پشتو ادب اور پختون افغان قوم کے لیے ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب ناقابل فراموش تحفہ ہے۔ اس کتاب کے لیے دیدار صاحب کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے، کم ہے۔ میرے خیال میں اگر ڈاکٹر صاحب صرف یہ ایک کتاب بھی لکھتے، تب بھی ان کا مقام پشتو ادبیات میں بلند ہوجاتا۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے معیار کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ اس لیے یہ کتاب دس سال تک نصابی ماہرین کی نظروں سے دور رہی۔ خدا کا شکر ہے کہ سابقہ حکومت نے نصاب کے حوالے سے کافی کام کیا اور اس کتاب سے بھی دو نظمیں نصاب کا حصہ بنیں۔ یہ ہمارے لیے خوشی کی بات ہے۔ اگر آپ کہیں پشتو نصابی کتب کی ورق گردانی کریں، تو حیران رہ جائیں گے کہ پہلی سے پانچویں جماعت تک پشتو کی ہر کتاب میں مؤلفین، مرتبین و ماہرینِ نصاب کے علاوہ کسی اور ادیب یا شاعر کی نظم نہیں پائیں گے۔

ڈاکٹر دیدار یوسف زے کے دو اشعار۔

دیدارؔ صاحب کی یہ نظمیں انتہائی آسان اور دلچسپ ہیں۔ موضوعات بھی اہم ہیں۔ بچوں کے اذہان پر نصابی کتب کے اثرات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ اس لیے اس حوالہ سے موصوف کی اس کتاب سے کافی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
چھٹی اور تادم تحریر آخری کتاب ’’تالہ میدان‘‘ ہے۔ یہ کتاب مئی 2002ء میں زیورِ طبع سے آراستہ و پیراستہ ہوچکی ہے۔ اس کتاب کو یوسف زیٔ قبیلے کے جد امجد ’’ملک احمد بابا‘‘ اور ماہرِ ارضیات شیخ ملی بابا کے نام منسوب کیا گیا ہے۔ کتاب پر پروفیسر فضل محمود روخان اور پروفیسر شیر زمان سیمابؔ کے تاثرات رقم ہیں۔ اس کتاب میں دیدار کا شاعرانہ فن عروج پر ہے۔
آپ کے پاس کافی غیر طبع شدہ کلام بھی موجود ہے۔ زر خیز ذہن کے مالک ہیں۔ آپ افسانے بھی لکھتے ہیں۔ اُمید ہے کہ پشتو ادبیات کو پروان چڑھانے کے لیے اور بھی بہت کچھ کریں گے، اِن شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ موصوف کو لمبی عمر اور اچھی صحت دے، تاکہ اس بے سہارا قوم اور بے آسرا زبان کے لیے اور بھی بہت کچھ کرسکیں، آمین۔

……………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔