جہاں تک اخلاقی بلندی کا تعلق ہے، قصیدہ اور مرثیہ میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ جو اوصاف کسی شخص کی زندگی میں بیان کیے جاتے ہیں، انہی اوصاف کو اُس شخص کی موت کے بعد دہرایا جاتا ہے۔ البتہ طرزِ ادا اور اُسلوبِ بیان دونوں کے مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً قصیدے میں کہا جاتا ہے، تو ’’فیاض ہے‘‘ اور مرثیہ میں کہا جاتا ہے، ’’فیاض تھا‘‘۔
شائد اُردو شاعری کی ابتدا ہی مرثیہ سے ہوئی، کیوں کہ مرزا دبیرؔ اور میر انیسؔ کے زمانے میں صنف کو اس قدر وسعت حاصل ہوئی کہ تمام اصنافِ شاعری پر حاوی ہوگئی۔
مرثیہ میں قصیدے کی طرح تشبیب نہیں ہوتی بلکہ اصل مضمون ہی سے شروع کیا جاتا ہے۔
(پروفیسر ڈاکٹر فاروق چودھری کی تالیف ’’اُردو آموز‘‘ کے صفحہ نمبر 153 سے انتخاب)