مطلع:۔کسی غزل، قصیدے اور نظم کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے۔ مطلع کے دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ردیف ہوتے ہیں۔ قدما اپنی غزلوں میں صرف ایک مطلع کہتے تھے، لیکن متاخرین نے کئی کئی مطلعے کہے ہیں۔ مثال کے طور پر احمد فرازؔ کی ایک مشہور غزل کا مطلع ملاحظہ ہو:
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے
حسنِ مطلع:۔ اگر کسی غزل میں دو مطلعے ہوں، تو دوسرے کو حسنِ مطلع کہتے ہیں۔ مثلاً ذیل کے اشعار ملاحظہ ہوں:
کسی صورت نمودِ سوزِ پنہانی نہیں جاتی
بجھا جاتا ہے دل، چہرے کی تابانی نہیں جاتی
نہیں جاتی کہاں تک فکرِ انسانی نہیں جاتی
مگر اپنی حقیقت آپ پہچانی نہیں جاتی
مقطع:۔ غزل یا قصیدے کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے، اس شعر میں شاعر بالعموم اپنا تخلص استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ذیل کا شعر ملاحظہ ہو:
دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے