ساقی نامہ کو مثنوی کی ہیئت میں لکھا جاتا ہے اور اس کو بحرِ متقارب میں لکھا جاتا ہے۔ بحرِ متقارب نہایت مترنم بحر ہے۔
ساقی نامہ میں ایسے اشعار شامل ہوتے ہیں، جن میں ساقی سے شراب کی طلب کی جائے۔ شراب کی تعریف کی جائے۔ اس کے مؤجد نظامی گنجوی ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے ’’ساقی نامہ‘‘ لکھا۔
ساقی نامہ میں شراب بھی ہوسکتی ہے اور مجازاً کسی اور معنی مثلاً عرفان و آگہی کا استعارہ کے طور پر بھی باندھا جاسکتا ہے۔
بہت سے شعرا نے نظامی گنجوی کی پیروی میں ساقی نامے تحریر کیے ہیں۔ ساقی نامہ اپنا ایک الگ تشخص رکھتی ہے۔
مثنوی سحر البیان میں میر حسن نے بھی گنجوی کی پیروی میں لکھا ہے:
خوشی سے پلا مجھ کو ساقی شراب
کوئی دن میں بجتا ہے چنگ و رباب
کدھر ہے تو اے ساقیِ گل بدن
دھری آج اس شمعِ رو کی لگن
ساقی نامہ میں دونوں طرح کے موضوعات کو لیا جاتا ہے یعنی حقیقتاً اور مجازاً شراب کی طلب کی جاتی ہے۔
مجازاً میں معرفت، علم و عرفان اور فضل و کرم کی شراب بھی طلب کی جاتی ہے۔ اس کی زندہ مثال ہمارے پاس علامہ محمد اقبال کی ’’ساقی نامہ‘‘ موجود ہے۔ اس ضمن میں آل احمد سرور لکھتے ہیں: ’’یہ ساقی نامہ علامہ اقبال کی بہترین نظموں میں شامل کیے جانے کے قابل ہے۔ یہاں شاعر ساقی سے جو شراب مانگتا ہے، وہ زندگی، حرکت، عمل، خودی کی بلندی اور انسان کی معراج سے عبارت ہے۔‘‘
اقبال کے ساقی نامہ سے چند اشعار
وہ مے جس سے روشن ضمیرِ حیات
وہ مے جس سے ہے مستیِ کائنات
وہ مے جس سے ہے سوز و سازِ ازل
وہ مے جس سے کھلتا ہے رازِ ازل
اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
(’’ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم‘‘ کی تالیف ’’اصنافِ اُردو‘‘ ، ناشر ’’بک کارنر‘‘، تاریخِ اشاعت 2 3مارچ 2018ء، صفحہ نمبر 184 سے انتخاب)