مکرنی ایک قدیم صنفِ سخن ہے جسے کہہ مکرنی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس میں اظہار اور اخفا کی متضاد خواہشات جمع ہوجاتی ہیں۔
کہہ مکرنیوں میں موضوعات کے حوالے سے ابوالاعجاز حفیظ صدیقی لکھتے ہیں:
’’شاعر (یا شاعر کے پردے میں کوئی اور) ایک بات کا حقیقت پسندانہ اعتراف کرنا چاہتا ہے لیکن اخلاقی اور سماجی قیود اور ان سے پیدا ہونے والی شرم و حیا کا احساس کھلم کھلا اعتراف میں مانع ہوتا ہے، اعترافِ حقیقت کے فوراً بعد اس کی متبادل صورت (تاویل، توجیہہ یا حل) پیش کردیتا ہے۔ ‘‘
امیر خسرو کو کہہ مکرنیوں کا اولین شاعر کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اس صنفِ سخن کو بامِ عروج بخشا، مگر یہ صنف زیادہ آگے نہ چل سکی اور اسے متروک صنفِ سخن قرار دے دیا گیا، مگر شان الحق حقی نے اس کے عروقِ مردہ میں جان ڈالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
امیر خسرو کی ایک کہہ مکرنی ملاحظہ ہو:
سگری رین موہے سنگ جاگا
بھور بھئی تب بچھڑن لاگا
اس کے بچھڑنے پھاٹت ہسیا
اے سکھی ساجن! ناسکھی دیا
شان الحق حقی کی ایک کہہ مکرنی ملاحظہ ہو:
ہاتھ سے جب چھیڑا تھرائی، پیر سے جب دابا غرائی
ناپے سڑکیں اور بازار، کیابھئی ناری؟ نا بھئی کار
(’’ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم‘‘ کی تالیف ’’اصنافِ اُردو‘‘ ، ناشر ’’بک کارنر‘‘، تاریخِ اشاعت 2 3مارچ 2018ء، صفحہ نمبر 167 سے انتخاب)