مغنی نامہ اُردو نظم میں داخل ہوچکی ہے۔ ہماری ثقافتی سرگرمیوں میں مغنی کا کردار روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ تھیٹر سے کوٹھوں پر اور کوٹھوں سے کوٹھیوں تک مغنی کا چرچا روز افزوں ہے۔
مغنی کے لغوی معنی ’’گانے والا‘‘ کے ہیں۔ یہ ہمیشہ تانیث کے ساتھ آتا ہے۔ مذکورہ صنف میں مغنی سے خطاب یا سماع کی خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے۔
مغنی نامہ نظامی گنجوی کی ایجاد ہے۔ یہ صنف بھی ساقی نامہ کی طرح بحرِ متقارب میں لکھی جاتی ہے۔
مغنی نامہ عموماً الگ سے نہیں لکھی جاتی بلکہ مثنوی کے جزو کے طور پر اس میں شامل ہوجاتی ہے۔
حافظ شیرازی نے بھی مغنی نامہ اور ساقی نامہ دونوں لکھے ہیں۔
حافظ شیرازی کے مغنی نامہ سے چند اشعار ملاحظہ ہوں
مغنی نوائے طرب ساز کن
بہ قول و غزل قصہ آغاز کن
کہ بارِ غم بر زمیں درخت پای
بہ ضرب اصولم برآورز جای
مغنی کجائی بہ گلبانگ رود
بیاد آدرآں خسروانی سرود
کہ تادجدار کار سازی کنم
برقص آیم خرقہ بازی کنم
(’’ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم‘‘ کی تالیف ’’اصنافِ اُردو‘‘ ، ناشر ’’بک کارنر‘‘، تاریخِ اشاعت 23 مارچ 2018ء، صفحہ نمبر 185 سے انتخاب)