حال ہی میں مجھے میرے لاہور میں مقیم ادبی دوست ڈاکٹر عرفان احمد خان نے کراچی سے شائع ہونے والا ادبی جریدہ ’’رنگ ِادب‘‘ کا گولڈن جوبلی نمبر بھیجا۔ رنگِ ادب کا یہ شمارہ اسلام آباد کی معروف صحافی، شاعرہ، ناول نگار اور سفرنامہ نگار محترمہ شاہدہ لطیف نمبر کے نام سے شائع ہوا ہے۔ یہ ضخیم اور مجلد شمارہ امپورٹڈ آفسڈ پیپر کے 528 صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں پاکستان کے قریباً 100 جغادری لکھاریوں نے شاہدہ لطیف کے فکر و فن پہ نظم و نثر میں گلہائے عقیدت و محبت نچھاور کیے ہیں۔ ڈاکٹر عرفان احمدخان نے مجھے اس خاص نمبر بارے بتایا کہ یہ کتاب نہیں شہد کا چھتا ہے، جس میں شہد کے مکھے ( جو اس کتاب میں اکثریت سے ہیں) اور مکھیوں کے شہد بھرے جملے بہ افراط کشید کیے جا سکتے ہیں۔ یوں اسے شہد بھرے جملوں کا انسا ئیکلو پیڈیا بھی کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ اس چھتے کا راجا مکھا مجھے ڈاکٹر افتخار بخاری معلوم ہو رہا ہے، اور سچ بھی یہی ہے کہ ہر ہر مضمون میں رس ٹپکتے جملے قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈال کر زعفرانی وادیوں کی سیر کرا دیتے ہیں۔ کسی نے انہیں اوتار کہا، تو کسی نے عبقری شاعرہ، کسی نے روشن ستارہ کہا، تو کسی نے رنگوں کا استعارہ،کسی نے انا کی شاعرہ کہا، تو کسی نے ادبی مینارہ، کسی نے آئرن لیڈی کہا، تو کسی نے شاعرات کی خاتونِ اوّل، کسی نے پاکستان کی بیٹی کہا، تو کسی نے ہشت پہلو شاعرہ وغیرہ کہہ کر اُن کا حقِ فن ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
سچ پوچھیے، تو مَیں نے انہیں نسائی ادب میں ماسوائے چند ایک حوالوں کے، نہیں پڑھا تھا۔ اُن کی کتاب ’’معجزہ‘‘ کا شہرہ سن تو ضرور رکھا تھا، پڑھا نہیں تھا۔ اُن کے ناولوں، سفرناموں اور حالاتِ حاضرہ پہ لکھی گئی کتب سے بھی آگاہ نہیں تھا۔ اور سوات جیسے دور افتادہ علاقے میں رہنے کی وجہ سے ان کا شہرۂ آفاق ماہنامہ (میگزین) ’’اوورسیز انٹرنیشنل‘‘ سے بھی بے خبر تھا۔ بھلا ہو رنگِ ادب کا کہ ان کی 17 شعری و نثری تخلیقات سے آگاہی بھی ہوئی اور اُن کے فکر و فن سے شناسائی بھی ہوگئی۔ اس خاص نمبر میں ان 17 کتب پر خاصے اچھے مضامین لکھے گئے ہیں۔ نیز آپ کی شخصی، سماجی اور صحافتی زندگی سے متعلق بھی اس کتاب میں کافی مواد موجود ہے۔
آپ جس میدان میں بھی گئیں، کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ مارشل آرٹ اور سکواش سے لے کر جہاز اُڑانے اور لڑانے جیسے میدانوں میں بھی ہمیشہ آگے آگے رہیں۔ صحافت میں قدم رکھا، تو 22 سال تک فور کلر آرٹ پیپر پر ’’اوورسیز انٹرنیشنل‘‘ جیسا معیاری پرچہ باقاعدگی سے جاری کرتی رہیں، جس پر ہر ماہ تین لاکھ خرچہ آتا تھا۔ آپ نے بے شمار ملکوں کے دورے کیے، لیکن اپنے وطن کی مٹی سے ہمیشہ رشتہ جوڑے رکھا۔ ایک دفعہ تاج محل (آگرہ) میں آپ کی کتاب کی تقریبِ پذیرائی پہ آپ کو مدعو کیا گیا، تو آپ نے یہ کہہ کر جانے سے انکار کر دیا کہ اگر آپ میری کتاب ’’مَیں پاکستانی ہوں‘‘ کی تقریب منعقد کرائیں، تو میں آؤں گی۔
آپ نے تین ملکوں ( فرانس، برطانیہ اور سعودیہ ) کے سفرنامے لکھے، لیکن کمالِ فن یہ دکھایا کہ سفرنامے جیسی نثری صنف کو آپ نے نظم میں رقم کرکے اپنی استادانہ فنی پختگی کا ثبوت دیا۔ یہی نہیں بلکہ ’’معرکۂ کشمیر‘‘ نامی کتاب بھی آپ کی منظوم کاوش ہے۔ دو عدد تاریخی ناول، کرنٹ افیئرز پر کتب، قائداعظم کی سوانح عمری اور مختلف تراجم کے علاوہ دیگر شعری مجموعے آپ کے ایسے کارنامے ہیں جس پہ حکومتِ پاکستان نے آپ کو صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔
بنیادی طور پر آپ شاعرہ ہیں۔ نسائی ادب میں آپ کا ایک معتبر نام اور حوالہ ہے۔ آپ کی غزل میں سادگی، سلاست اور روانی کے ساتھ ساتھ گہرائی اور گیرائی موجود ہے۔ آپ کا کلام تصنع اور بناوٹ سے پاک ہے، جسے شعوری بناؤ سنگھار سے ہر گز بوجھل نہیں بنایا گیا۔ آپ کا نسائی لب و لہجہ اوڑھنی کے رنگوں کی طرح جا بہ جا جھلکتا نظر آتا ہے، مثلاً:
نہ میری سوچ کو پرکھا، نہ میرا فن سمجھا
وہ کور ذوق مجھے صرف اِک بدن سمجھا
مزید لکھتی ہیں:
میں آدھی گواہی ہوں، گواہی تو ہوں پھر بھی
کیوں پوری گواہی کی سہولت نہیں مجھ کو
اور یہ بھی کہ :
وہ ماہتاب دریچے سے تک رہا تھا مجھے
ٹھٹھک کے رہ گئی میں سیڑھیاں اُترتی ہوئی
آپ کی شاعری ادب برائے زندگی کی بھی علمبردار ہے۔ آپ کی رگ و پے میں اپنی مٹی کی بو رچی بسی ہے، جبھی تو ڈاکٹر حسن فاروقی لکھتے ہیں کہ شاہدہ نے وطن کی ردا اوڑھ کر خود کو مکمل طور پر وطن کے سپرد کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اپنے کسان کے غم میں یہاں تک لکھ ڈالتی ہیں کہ
مجھے کچھ شاہدؔہ غم ہے تو بس اپنے کسانوں کا
زمینیں ڈوب جائیں تو بیچارے ڈوب جاتے ہیں
یہاں مجھے کہنے دیجیے کہ آپ کی تخلیقات میں آفاقیت نظر آتی ہے، مگر جانے کیوں آپ نے وفاقیت کو ترجیح دی۔ بہر کیف! وطنیت کے ساتھ ساتھ آپ حب الٰہی اور حب رسولؐ کی محبت، عقیدت اور مودّت میں بھی سرتاپا ڈوبی نظر آتی ہیں۔ نعت میں آپ نے نادر اسلوب اپنا کر مثنوی ہیئت میں اپنی محبت کے گلہائے عقیدت نچھاور کیے ہیں جب کہ حمد میں آپ کا جذبۂ ٔ عشق سرشاری کی حدوں کو چھوتا نظر آتا ہے۔ لکھتی ہیں:
مری آنکھوں کی جو دو پُتلیاں ہیں
مدینے کے چمن کی تتلیاں ہیں
آپ کی رگ رگ میں وطن کی محبت رچی بسی ہے۔ آپ نے مٹی کے گیت گائے، پوری دنیا گھومی، لوگوں سے متاثر بھی ہوئی لیکن اپنے وطن کی سوندھی خوشبو کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ جبھی تو پیرس کی گلیوں میں گھومنے کے بعد وطن آکر کچھ اس طرح رقم طراز ہوتی ہیں:
لوٹ کر پیرس سے آ کے اپنا گھر اچھا لگا
وہ نگر اچھا سہی، اپنا نگر اچھا لگا
آئینے اور کانچ کی دنیا وہاں دیکھی مگر
سچ تو یہ ہے شاہدہ ؔ، مٹی کا گھر اچھا لگا
’’رنگ ِادب‘‘ کے ’’شاہدہ لطیف نمبر‘‘ میں اُن کی ہمہ جہت شخصیت اور ان کے فکر و فن کے تمام منور گوشے اِک دھنک کی مانند ذوفشاں ہیں۔ اگر کوئی کمی ہے، تو اس کے باتصویر نہ ہونے کی۔
……………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔