پشتون معاشرے میں موبائل پچھلے ڈیڑھ عشرے میں عام ہوا۔ اس وقت موبائل ہر امیر غریب کے ہاتھ میں آ چکا ہے۔ موبائل کی وجہ سے ایک انسان کا دوسرے سے رابطہ براہِ راست ہو گیا ہے۔ پہلے اپنا پیغام دوسرے انسان کو پہنچانے کے لیے جتنے جتن کرنا پڑتے تھے، اب ان کی ضرورت نہیں۔ اگرچہ لینڈ لائن ٹیلیفون کی سہولت ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں موجود تھی، لیکن عام دیہی آبادیاں ان سے مستفید نہیں تھیں۔
پشتون پٹی کے اکثر کم پڑھے لکھے یا اَن پڑھ نوجوان خلیجی ممالک میں مزدوریاں کرتے ہیں۔ ان کو پاکستان کے اندر اپنے پیاروں سے بات کرنے کے لیے ٹیپ ریکارڈز کے کیسٹ کا سہارا لینا پڑتا تھا،جن میں دل کی باتیں پرائیویسی کی وجہ سے ممکن نہیں ہوتی تھیں۔ گھر والوں سے عام باتیں اور علیک سلیک کیا جاتا۔ حتی کہ بیوی سے بھی دل کی باتیں یا رومانوی باتیں کرنا ممکن نہیں تھا۔ دیہی علاقوں میں خال خال گھروں میں یا قدرے امیر گھروں میں ٹیلیفون ہوتے تھے۔ پی ٹی سی ایل ان دنوں بہت مہنگا تھا اور مارکیٹ میں اس کی متبادل کمپنیاں نہیں تھیں۔ ٹیلیفون ایکسچینج خال خال علاقوں میں تھے۔ یوں انسانوں کا پیغام رسانی کا نظام پشتون علاقے کی اکثریت میں وہی صدیوں پرانا قدیم نظام تھا جس میں ایک انسان دوسرے کے پاس جا کر پیغام پہنچاتا۔
آج سے دو عشرے پہلے تک جتنی رومانوی پشتو شاعری ہوئی ہے۔ اس میں تین الفاظ آپ کو کثرت سے ملیں گے۔ ’’گودر‘‘، ’’ریبار‘‘ اور ’’بام۔‘‘ موبائل کے عام ہونے کے بعد تینوں کا ذکر اب شاعری میں متروک سا ہو گیا ہے۔ اگرچہ ’’گودر‘‘ کا خاتمہ تو چار عشرے پہلے ہوچکا ہے، جب ٹیوب ویل، پریشر پمپ اور ہینڈ پمپ معاشرے میں عام ہوا، لیکن ’’ریبار‘‘ اور ’’بام‘‘ کی ضرورت اس وقت معدوم ہوگئی جب موبائل اور تھری جی، فور جی ٹیکنالوجی متعارف ہوئی۔ زمانۂ قدیم سے لے کر کچھ عشرہ پہلے تک پشتون نوجوانوں کی رومانوی زندگی مذکورہ بالا تین چیزوں کے گرد گھومتی تھی۔ پشتون معاشرت میں عورتیں سخت پردہ کرتی چلی آ ہی ہیں۔ چوں کہ پیار، محبت اور عشق و الفت انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔ لہٰذا حالات اگر کٹھن بھی ہوں، لیکن یہ ہو کر رہتے ہیں۔ پشتون نوجوانوں اور دوشیزاؤں کی محبت کی داستانیں بھی پشتون ادب میں عام ہیں۔ مثلا: ’’آدم خان درخانئی‘‘ اور ’’یوسف خان شیربانو‘‘۔ پشتون رومانوی شاعری اور فوک قصے کہانیوں میں’’گودر‘‘، ’’ریبار‘‘ اور ’’بام‘‘ کا ذکر اس قدر کثرت سے ہوا ہے کہ شائد ان کے بغیر رومانوی شاعری مانی ہی نہ جائے۔ آئیے، تینوں پر اختصار سے روشنی ڈالتے ہیں۔
٭ بام:۔ ’’بام‘‘ فارسی زبان سے ماخوذ ہے۔ اس کے معنی اونچی جگہ،کمرے کی چھت یا دیوار کے اوپری حصہ کے ہیں۔ اردو اور پشتو دونوں میں اسی معنوں کے ساتھ یہ لفظ مستعمل ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جب موبائل نہیں تھے،کوئی اور ذریعہ نہیں تھا، توتعلیم بھی اتنی عام نہیں تھی کہ خطوط لکھے جاتے۔ عورتوں کی تعلیم عام نہیں تھی، تو عاشق اور معشوق ایک دوسرے کو مدتوں بعد دیکھنے کے لیے ’’بام‘‘ پر آنے کا سہارا لیتے ۔ عموماً پشتون دوشیزہ گھر کی دیوار پر آ کر کچھ لمحوں کے لیے اپنے محبوب سے نظریں ملاتی۔ جھجک، ڈر، خوف، شرم و حیا کے ساتھ کچھ باتیں ہوتیں۔ کبھی کبھار محبوب حسبِ استطاعت تحفے دیتا، جو عموماً رومال، انگوٹھی یا چوڑیوں کی صورت میں ہوتے۔ کچھ لمحوں پر مشتمل یہ قیمتی ملاقات ختم ہوجاتی۔ پھر اگلے موقعوں کا انتظار کیا جاتا، جو بعض دفعہ کبھی نہ آتے یا ایک آدھ بار ہی آتے۔ دونوں (معشوق اور معشوقہ) ان قیمتی لمحات کو ذہن کے پردہ پر محفوظ کرلیتے، محبوبہ پشتو ٹپے کی صورت میں اور جوان رومانوی شاعری کی صورت میں اور یا پھر دل ہی دل میں۔ پشتو شاعری میں لفظ ’’بام‘‘ کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ اردو شاعری میں بھی بام کا ذکر کثرت سے ہوا ہے۔ بقولِ رحمت اللہ دردؔ مروت:
دردہؔ زما د محبت قدر ئی او نکڑلو
اوس دی ولاڑہ وی غمجنہ پہ بام اوچی شونڈی
اس طرح ایک مشہور فوک گیت ہے:
تہ چی پہ بام باندی ولاڑہ وی تا چاتہ کتل
خلق زما پہ نندارہ وو چی ما تاتہ کتل
موبائل کے آنے کے بعد اب بام کی ضرورت نہیں رہی۔ ایک تو عورتیں گھروں سے نکلی ہوئی ہیں، نوکریاں کر رہی ہیں اور تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ دوم تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد اب براہِ راست نظارے ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ نہ بھی ہو، تو دو بدو ملاقات اس قدر مشکل نہیں۔
٭ گودر:۔ کچھ عرصہ پہلے پشتون پہاڑوں کے دامن میں پینے کا پانی بھرنے کی ذمہ داریاں عموماً لڑکیوں کی ہوتی تھیں۔ پشتون دوشیزائیں گھروں سے دور پانی کے کنوؤں، چشموں یا نہروں پر جاتیں اور وہاں عموماً عصر کے وقت اگلے دن کے استعمال کے لیے پانی ڈھو ڈھو کر لاتیں۔ جہاں سے پانی بھرا جاتا اس جگہ کو پشتو میں ’’گودر‘‘ کہا جاتا تھا۔ پشتون نوجوان ان جگہوں پر جا کر اپنی معشوقاؤں کا دیدار کرتے۔ یہاں آنکھیں ملائی جاتیں اور رومانوی زندگی کے حسین لمحات جنم لیتے۔ پشتون شاعروں نے جس شدت سے ’’گودر‘‘ کا ذکر کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عاشقوں کے لیے گودر پشتون معاشرت میں ایک ’’اسمبلی پوائنٹ‘‘ہوتا۔
کلہ باران کلہ سیلئی وی
چی د گودر یارانے کڑے زڑہ بہ دی چوینہ
پشتون شاعروں نے گودر کے خاتمے پر زبردست ماتم بھی کیا ہے۔ اباسین یوسف زئی کہتے ہیں:
دَ مینی زور وو پکی دوئی ھم وو پہ سر ختلی
چی گودر وران شو نو منگے ھم ٹوٹے ٹوٹے شو
ڈاکٹر اعظم اعظمؔ نے اپنی شاعری کا ایک بڑا حصہ گودر کے خاتمے پر ماتم کرکے تخلیق کیا ہے۔
خلق بدل شو کہ بدل شولو وختونہ
جنیکئی نہ رازی گودر تہ
اگرچہ گودر کا خاتمہ موبائل کے آنے سے دو عشرے پہلے ہوا ہے، لیکن موبائل کی ایجاد سے گودر اگر وجود رکھتا بھی، تو اس کی ضرورت باقی نہ رہتی۔
٭ ریبار:۔ ’’ریبار‘‘ پشتو زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی پیغام رساں کے ہیں۔ یہ دو محبت بھرے دلوں کے درمیان پیغام رسانی کا کام کرتا۔ چاہے خطوط کا تبادلہ ہوتا، زبانی پیغامات کا یا تحائف کا، ریبار پل کا کردار ادا کرتا۔ بعض لوگ اسے ’’دلال‘‘ بھی کہتے۔ عموماً چھوٹے بچوں سے یا لڑکی کے رشتہ داروں، بھائیوں، بہنوں یا اہل محلہ سے یہ کام لیا جاتا۔ یہ بہت مشکل کام ہوتا اور اس سے عشق کے راز کھلنے کا امکان زیادہ ہوتا۔ ریبار ماما اکثر اپنا حصہ مالی مفادات کی صورت میں بھی وصول کرتا۔
ریبارہ سہ چاری دی اوکڑی
لیگلے ما وے کار دی زان تا اوویستونہ
ایک اور ٹپہ ہے
مالہ وڑوکی ریبار خہ دے
چی ستا خبرہ پہ سلگو راتہ کوینہ
موبائل کی ایجاد نے ریبار ماما کے کردار کو بھی ختم کر دیا۔ اب پیار و محبت کے لیے ’’وٹس اپ‘‘، ’’فیس بک‘‘ اور ’’موبائل‘‘ دستیاب ہیں۔بس تھوڑی سی جتن کرنا پڑتی ہے کہ جو پسند آ جائے، اس کا نمبر ملے۔ جب نمبر ملے، تو کچھ دن جھجک کے ساتھ باتیں ہوتی ہیں، ناپ تول کے ساتھ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ راقم الحروف لکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔ وہ سب کو معلوم ہے۔
المختصر، موبائل کی ایجاد نے نئی تخلیق ہونے والی شاعری سے ’’گودر‘‘ ،’’ریبار‘‘ اور ’’بام‘‘ جیسے الفاظ و اصلاحات ہمیشہ کے لیے نکال دیے، جو رومانوی پشتو شاعری کی تخلیق کی بنیاد تھے۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔