جب کلام میں کسی شے یا فرد کی مدح یا ذم میں متواتر صفات کے ساتھ اُس کا ذکر کیا جائے، تو اسے صنعتِ تنسیق الصفات کہتے ہیں۔
پھول سا چہرہ، چاند سی رنگت، چال قیامت کیا کہیے
جو بھی دیکھے ہوجائے پاگل اپنی تو حالت کیا کہیے
اس شعر میں محبوب کے چہرے، رنگت اور چال کی صفات کو یکجا کیا گیا ہے۔
یہ کوری، کراری، کنواری نظر
مار ڈالے گی ظالم تمہاری نظر
نظر کا کورا، کرارا اور کنوارا ہونا صفات ہیں۔
(’’ارتباطِ حرف و معنی‘‘ از ’’عاصم ثقلینؔ‘‘، پبلشرز ’’فکشن ہاؤس، لاہور‘‘، سنہ اشاعت 2015ء، صفحہ نمبر 73 سے انتخاب)