آہ کو چاہیے اِک عمر اثر ہوتے تک
کون جیتا ہے تِری زلف کے سر ہوتے تک
’’دیوانِ غالبؔ کامل‘‘ صفحہ 233۔
غالبؔ نے اس غزل میں ردیف "ہوتے تک” استعمال کی ہے، لیکن عوام اور خواص، سب بالعموم ردیف "ہونے تک” پڑھتے ہیں۔
(’’اردو کے ضرب المثل اشعار تحقیق کی روشنی میں‘‘ از (تحقیق و تالیف) محمد شمس الحق، مطبوعہ ’’فکشن ہاؤس‘‘، اشاعت چہارم 2020ء، صفحہ نمبر 185 سے انتخاب)
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک
عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہوتے تک
تا قیامت شبِ فرقت میں گزر جائے گی عمر
سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہوتے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک
پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک
یک نظر بیش نہیں فرصت ِہستی غافل
گرمیٔ بزم ہے اک رقصِ شرر ہوتے تک
غمِ ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک
(پوری غزل ادب کی مؤقر ویب سائٹ www.rekhta.org سے اٹھائی گئی ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)