صنعتِ اقسامُ الثلاثہ:۔ اس صنعت کو صرف ’’نجم الغنی رام پوری‘‘ نے اپنی کتاب ’’بحر الفصاحت‘‘ میں رقم کیا ہے۔ بلاغتی تاریخ میں کہیں اور نظر نہیں آتی۔ موصوف لکھتے ہیں: ’’صنعتِ اقسامُ الثلاثہ، اگر مجملاً پڑھیں، تو ایک غزل ہے اور جو مطلع چھوڑ کر پہلے مصرعوں کو پڑھیں، تو اور غزل ہوجائے، اور جو مطلع چھوڑ کر پچھلے مصرع پڑھیں، تو پانچ مرتب مطلع ہوجائیں۔ مثلاً بقولِ کرمؔ
خندۂ لب سے ہے اس کے شمعِ خنداں بے فروغ
جلوۂ دنداں سے ہے سروِ چراغاں بے فروغ
نورِبینائی ہے کم، زلفِ بتِ گلفام سے
ہے اندھیری رات میں شمع شبستاں بے فروغ
ٹمٹماتا ہے چراغِ خانہ اپنا شام سے
ہے سوادِ خط میں یعنی روئے، جاناں بے فروغ
جو امامِ سبحہ گنیے مجھ کو سوکا پیشوا
ہوں تو میں دانا پہ ہوں پیش ندیماں بے فروغ
گرچہ میں گنتی سے باہر ہوں پہ ہوں آرام سے
جوں چراغِ کشتۂ گورِ غریباں بے فروغ
ہے نہوروں سے ہمارے اس کی نکتوری زیاد
وصل کی شب میں بھی نجمِ بخت ہے یاں بے فروغ
کام ڈالا ہے خدا نے کس بتِ خود کام سے
ہے شرارت سے وہ کافر رو بداماں بے فروغ
لگ گئی ہیں اس مریضِ غم کی آنکھیں چھت کو آج
ہے وہ نورِ دیدہ اک گوشے میں پنہاں بے فروغ
دیکھ کر بالا خرامی اس کی سمتِ بام سے
مردمِ چشم اپنی ہیں یاں زیرِ ایواں بے فروغ
کیا ہی ہو نکلا ہے ابتر چو چو پوچو میں وہ شوخ
خجلت دشنام سے ہے روئے انسان بے فروغ
اے کرم! اودھم اٹھا رکھی ہے اس نے شام سے
اچپلاہٹ سے ہے اس کی برقِ رخشاں بے فروغ
اس صنعت کو رام پور کے رہنے والے کرم خان اور بقولے کریم اللہ خان کرم تخلص عرف مکھو خان نے ایجاد کیا ہے۔ تعلیقات میں لکھتے ہیں اس صنعت کا تعلق صرف غزل سے ہے۔ ’’نہورا، خوشامد، منت سماجت، نکتوری‘‘ نکتورا کی تانیث و تصغیر ہے۔ اس کے معنی ناز نخرہ یا طنزیہ کلام جو ناک چڑھا کر کیا جائے، ہیں۔

………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔