ضلع صوابی کے علاقہ لاہور سے تعلق رکھنے والے میرے ایک دوست نورالبصربصرؔ صاحب کچھ سال پہلے ’’پشتو ادب میں مرثیہ نگاری کی روایت‘‘ پر اپنا ایم فل کا تحقیقی مقالہ لکھ رہے تھے اور اس سلسلہ میں وقتاً فوقتاً میرے پاس آکر اس بارے میں بحث مباحثہ بھی کرتے رہے۔ دورانِ مطالعہ اس کو یہ مسئلہ پیش آیا کہ مرثیہ ایک صنف ہے یا موضوع ہے، اور اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ ہر صنفِ ادب پر غور کرنے لگے۔ آخر میں پشتو فوکلوری صنف ’’بَدَلہ‘‘ کا ذکربھی آیا۔ اس سلسلہ میں بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ بدلہ اور مثنوی میں ہیئت(From) اور موضوعات (Contents) کے لحاظ سے فرق کیا ہے؟ اس سلسلہ میں جب میں نے تھوڑی تحقیق کی، تو سب سے پہلے مجھے خوشحال خان خٹک کا یہ شعر مل گیا
یا دَ سپینو تورو مرد شہ، یا عاشق شہ
چی یادیگے پہ بدلو، پہ سندرو
خوشحال خان خٹک کے اس شعر میں پشتو عوامی (اولسی) ادب کے دو اصناف (Genres)’’بدلہ‘‘ اور ’’سندرہ‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس آرٹیکل میں ’’بدلہ‘‘ کے آغاز و ارتقا اور دیگر مختلف پہلوؤں پر بحث کی جائے گی۔ بدلہ کے بارے میں عموماً یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ ’’بدلہ‘‘ کیا ہے، بدلہ اور مثنوی میں فرق کیا ہے، بدلہ کس وقت سے پشتو ادب میں بہ طور صنف موجود ہے، اس کے موضوعات کیا ہیں، اس صنف نے کس حد تک ترقی کی ہے، اس صنف کے زوال کے اسباب کیا ہیں؟ وعلیٰ ہذا القیاس۔
آج کی نشست میں ان سوالات کا اور اس قبیل کے دیگر سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے گی۔ سب سے پہلے ہم ’’بدلہ‘‘ کی روایتی تعریف کی طرف آتے ہیں، جو کہ قلم در قلم آئی ہوئی ہے۔ آخر میں ان تمام تعریفوں کا جائزہ لے کر ’’بدلہ‘‘ کے موضوع، ہیئت اور اس کے دیگر پہلوؤں کو زیرِ غور لایا جائے گا۔
افضل رضا صاحب ’’بدلہ‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’بدلہ کے معنی ہیں بدلا ہوا۔ دراصل یہ مثنوی کا بدلا ہوا نام ہے۔ اس لیے یہ ’’بدلہ‘‘ کہلایا۔ اس میں رزمیہ اور بزمیہ دونوں قسم کی شاعری کی جاتی ہے۔ تاریخی اور واقعاتی، افسانوی، رومانوی، اخلاقی اور مذہبی باتیں سادہ مثنوی کے انداز میں ’’بدلہ‘‘ میں بیان کی جاسکتی ہیں۔ پشتون قوم کی تمام رومانوی داستانوں کے علاوہ دوسری زبانوں کے مشہور مذہبی اور رومانوی واقعات بھی پشتو ’’بدلہ‘‘ کی صورت میں پشتو لوک ادب کا قیمتی سرمایہ ہے۔‘‘
ہمیش خلیل صاحب ’’بدلہ‘‘ کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں: ’’بعض محققین کے نزدیک غزل اور بدلہ ایک ہی چیز ہے۔ اگرچہ لوگ بعض لنڈیٔ (ٹپہ) کو بھی بدلہ ہی تسلیم کرتے ہیں۔ بعض نے اس کو مثنوی کہا ہے اور سندرہ بھی تسلیم کیا ہے۔ ممکن ہے کہ اوپر بیان کی گئی بدلہ کی تعریف کے پیشِ نظر اس صنف کی کئی قسمیں بنتی ہوں۔ کیوں کہ بدلہ اپنے فریم کے سبب کئی ایک رُخ رکھتا ہے۔ تاہم بدلہ کی جتنی قسمیں بھی ہوں، عشق و محبت کے محور کے گرد گھومتی ہیں اور عاشق اپنی محبت کا اظہار ایک مخصوص انداز سے کرتا ہے۔ بدلہ کے لفظی خدوخال جیسے بھی ہوں، یہ جب اور جہاں بھی گایا جائے گا۔ اپنی مخصوص آہنگ کی وجہ سے باآسانی پہچان لیا جائے گا۔‘‘
پروفیسر محمد نواز طائر ’’بدلہ‘‘ اور مثنوی کی جنم بھومی کی بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پشتو مثنوی نے عوامی ادب کی ایک صنف کی صورت میں ’’بدلہ‘‘ کی شکل اختیار کی ہے اور تقلیدی انداز کے بجائے وہ تخلیقی راستہ اپنایا ہے، جس میں ہمارے لوک گیت یا فوکلوری ادب کے دوسرے اصناف جنم لیا کرتے تھے۔ لہٰذا کتابی شاعری کی یہ صنف تمام پختون خوا میں بہت زیادہ مقبول اور ہر دل عزیز ہے، لیکن ’’بدلہ‘‘ میں مثنوی کا علمی اور فلسفیانہ معیار قائم نہیں رکھا گیا ہے۔
ڈاکٹر عبداللہ جان عابد لکھتے ہیں: ’’بدلہ مثنوی کے طرز پر لکھا جاتا ہے، اس میں رومانوی، تاریخی، رزمیہ داستانیں اور واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔ آدم خان درخانئی، مومن خان شیرینئی، فتح خان رابیہ، جلاتے محبوبہ وغیرہ داستانیں بدلہ کے روپ میں منظوم کی گئی ہیں۔‘‘
افغانستان کے ادیب اور محقق محمد حسن ضمیر صافی اپنی کتاب ’’پشتنی سندرے‘‘ کے صفحہ ایک، جلد دوم میں جہاں چاربیتہ کی تعریف لکھتے ہیں، وہاں ساتھ یہ بھی درج کرتے ہیں کہ چاربیتے کو بعض لوگ سندرہ کہتے ہیں اور بعض ’’بدلہ‘‘ بھی۔ رئیس خان اپنے مقالہ ’’پشتو چاربیتہ اور چاربیتہ نگار: تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘ میں ’’بدلہ‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’بدلہ‘‘ یا سندرہ بھی ٹپے کی طرح عوامی شاعری کی پرانی اور پسندیدہ قسم ہے۔ بعض علاقوں میں ٹپہ، چاربیتہ، رباعی اور لوبہ تمام کو ’’بدلہ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے، جس میں عاشق و معشوق سوال و جواب کے انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض لوگ ’’بدلہ‘‘ صرف عورتوں کی آواز کو کہتے ہیں، یعنی کسی جگہ عورتیں، غزل یا پشتو کے دیگراشعار گا رہی ہوں، تو کہا جاتا ہے کہ فلاں جگہ پر عورتیں ’’بدلہ‘‘ گار ہی ہیں۔
درجِ بالا یا اس قسم کی دیگر تعریفوں میں جو باتیں مشترک ہیں، وہ یہ ہیں کہ ’’بدلہ‘‘ مثنوی کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ اس میں زندگی کے ہر قسم کے موضوعات (عشقیہ سے لے کر مذہبی تک) بیان کیے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ ان تعریفوں میں ’’بدلہ‘‘ اور مثنوی کے معمولی فرق کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ ’’بدلہ‘‘ میں مثنوی کا علمی اور فلسفیانہ معیار قائم نہیں رکھا گیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس میں مثنوی کے تقلیدی انداز کے بجائے تخلیقی انداز اپنایا گیا ہے۔ بہت سے لوگ اس کو مثنوی کی بدلی ہوئی شکل قرار دیتے ہیں، مگر یہ بات اس لیے درست معلوم نہیں ہوتی کہ پشتو کے کلاسیکی ادب میں بدلہ کے بہ طورِ صنف حوالے ملتے ہیں، اور یہ پشتو لوک ادب کی اپنی صنف ہے جب کہ مثنوی فارسی سے در آئی ہے۔ البتہ یہ بات کچھ حد تک قابلِ غور ہے کہ بعد میں مثنوی نے تحریری ادب کی شکل میں بڑے بڑے لکھاریوں کے ہاتھوں میں پلتے ہوئے اتنی ترقی کرکے مقبولیت حاصل کی کہ ’’بدلہ‘‘ پر اس کے اثرات مرتب ہوئے اور ’’بدلہ‘‘ کی ہیئت شائد مثنوی سے متاثر ہوئی ہو، لیکن جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ’’بدلہ‘‘ مثنوی کی بدلی ہوئی شکل ہے، تو یہ اس لیے درست معلوم نہیں ہوتی کہ اس کا بطورِ صنف ذکر پشتو کے کلاسیکی ادب میں ملتا ہے۔ جہاں تک پشتو ادب میں مثنوی کی ہیئت کے ابتدا کا تعلق ہے، تو اس بارے میں ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک لکھتے ہیں کہ ’’شیخ تیمن کے بعد غوریوں کا درباری شاعر تایمنی ہے۔ سلطان غیاث الدین غوری کے زمانے میں یہ اس کا درباری شاعر تھا۔ اس کا زمانہ 560ھ ہے۔ اس نے اپنے بادشاہ کی مدح میں جو اشعار کہے ہیں، یہ مثنوی کی ابتدائی شکل سمجھی جاتے ہیں۔‘‘ نویں صدی ہجری میں میرمن زرغونہ نے مثنوی میں حکایاتِ سعدی کا ترجمہ کیا۔ صدر خان خٹک نے 1112ھ میں مثنوی ’’یوسف زلیخا‘‘ لکھی اور عبدالقادر خان خٹک نے 1118ھ میں مثنوی ’’آدم خان درخانئی‘‘ لکھی۔ مثنوی میں حکایاتِ سعدی کا ترجمہ اور صدر خان خٹک کی ’’یوسف زلیخا‘‘ مذہبی پس منظر رکھتی ہیں، یعنی باقاعدہ طور پر مثنوی کی ابتدا مذہبی موضوعات سے ہوئی ہے۔ اس کے برعکس ’’بدلہ‘‘ کے تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ اس کے موضوعات صرف عشقیہ مضامین تک محدود تھے۔
پشتو کلاسیکی اور منظوم ادب میں ہمیں ’’بدلہ‘‘ کا لفظ ملتا ہے۔ ’’پٹہ خزانہ‘‘ میں ’’بدلہ‘‘ کا لفظ بطورِ صنفِ شاعری کئی جگہوں پر استعمال ہوا ہے۔ خوشحال خان خٹک کی کلیات میں بھی ’’بدلہ‘‘ کا لفظ بہ طورِ صنف ملتا ہے۔ اخون درویزہ نے ’’مخزن الاسلام‘‘ میں بھی ’’بدلہ‘‘ کا لفظ استعمال کرکے اس سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ کیوں کہ آپ کے بقول اس میں محبوب کی زلف اور خط و خال کی باتیں ہوتی ہیں۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ بعض لوگ ’’بدلہ‘‘ کو مثنوی کی بدلی ہوئی شکل خیال کرتے ہیں اور اس میں ہر قسم کے مضامین کو جگہ دینے کے قائل ہیں، تو اس بات کی یہاں نفی ہوتی ہے، یعنی اگر ’’بدلہ‘‘ میں ابتدا ہی سے مذہبی موضوعات شامل ہوتے، تو اخون درویزہ اس کو برانہ کہتے، مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ابتدا ہی سے رومانوی مضامین اور عشق و محبت کی داستانیں بیان کی جاتی تھیں۔ اگر ہم مذہب اور پشتون کلچر کو سامنے رکھیں، تو کسی بھی حال میں پشتونوں کی اس قسم کی رومانوی داستانوں کو اس کی وقوع پذیری کے وقت پذیرائی حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی عناصر نے اس کو برا سمجھا ہے۔ البتہ وقت گزرنے کے ساتھ اس قسم کی باتوں کو تخیل کا رنگ دے کر اصل واقعہ میں سوز و گداز پیدا کرکے قارئین و سامعین کی ہمدردیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جن خاندانوں کے سامنے اس قسم کی باتیں بیان کرنا ایک قسم کا پیغور (طعنہ) ہوتا، تو وہ خاندان بھی گزر جاتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ تمام زخم مندمل ہوکر لوگ واقعات کو اور رنگ دے کر بیان کرسکتے ہیں۔
پنجابی رومانوی داستان ’’ہیررانجھا‘‘ میں ’’ہیر‘‘ کا تعلق جھنگ کے علاقے سے تھا۔ وہاں سے ایک دوست نے بتایا کہ اب بھی ہمارے علاقے کے بزرگ ’’ہیر‘‘ کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے۔ کیوں کہ وہ کہتے ہیں کہ وہ ہمارے علاقے کی بدنامی کا سبب بنی ہے اور کھلے عام ایک غیر مرد (رانجھا) سے عشق لڑا بیٹھی ہے۔ اسی تناظر میں اگر دیکھا جائے، تو اس قسم کی رومانی داستانوں میں جو نسوانی کردار ہیں، ظاہر ہے کہ ہمارے معاشرے میں وہ قابل قبول نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سماج میں اس قسم کی رومانوی داستانوں کو بروقت حوصلہ افزائی نہ ملنے کی وجہ سے ان کی صنف ’’بدلہ‘‘ نے ترقی نہیں کی۔ اس کے مقابلے میں دیگر فوکلوری اصناف (ٹپہ وغیرہ) کو اگر دیکھا جائے، تو ان میں بھی عشق و محبت کی باتیں موجود ہیں، پھر بھی انہوں نے کافی ترقی کی ہے۔ ٹپہ کی مقبولیت کی وجوہات یہ ہیں کہ ایک تو یہ مختصر صنف ہے اور ہر کوئی اس اس پر طبع آزمائی کرسکتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس صنف پر یہ لیبل نہیں لگا ہے کہ اس میں صرف عشقیہ داستانیں بیان ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اخون درویزہ نے صرف ’’بدلہ‘‘ ہی کا نام لے کر اس سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
حاصلِ نشست یہ ہے کہ ’’بدلہ‘‘ مثنوی کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ اس کی کوئی خاص ہیئت بھی مقرر نہیں۔ البتہ مثنوی کی طرز پر نظم کی شکل میں اور کبھی کبھی درمیان میں ٹپے شامل کرکے اس میں رومانوی داستان بیان کی جاسکتی ہے۔ یعنی اس کی ہیئت مخصوص نہیں اور موضوع صرف عشقیہ داستانیں ہے۔ اس کے برعکس مثنوی کی ہیئت مقرر ہے اور موضوعات مختلف النوع ہیں۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔