مُناجات کا لغوی مطلب سرگوشی، دل کا بھید کہنا ہے جب کہ شاعری کی اصطلاح میں خدا کے حضور دعا کرنا، خیر مانگنا، عفو طلب کرنا۔ اس لیے اسے ایک انداز کی حمدیہ نظم بھی کہا جاسکتا ہے۔
ذیل میں محمد تابش صدیقی کی مناجات ’’ایک مجبور مسلمان کی مناجات‘‘ پیشِ خدمت ہے:
یا الٰہی! ترے خام بندے ہیں ہم
نفس ہی میں مگن اپنے رہتے ہیں ہم
تیری مخلوق محکوم بنتی رہے
ظلم جابر کا برما میں سہتی رہے
پڑھ کے احوالِ مغموم ہو جاتے ہیں
پھر سے ہنسنے ہنسانے میں کھو جاتے ہیں
ظلم کو روکنے ہاتھ اُٹھتے ہیں کب؟
بس دعا کے لیے ہاتھ اُٹھتے ہیں اب
حکمران اپنے، غفلت میں سوئے ہوئے
اپنی عیاشیوں ہی میں کھوئے ہوئے
ڈور اِن کی ہے اغیار کے ہاتھ میں
خیرِ اُمّت ہے بیمار کے ہاتھ میں
کرب اتنا ہے ، الفاظ پاتا نہیں
دل کی رنجش کا اظہار آتا نہیں
اے خدا! بھیج اپنے کرم کا سحاب
بند برما میں ہو اَب ستم کا یہ باب