لفظ قصیدہ عربی لفظ ’’قصد‘‘ سے بنا ہے، اس کے لغوی معنی قصد (ارادہ ) کرنے کے ہیں۔ گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہارِ خیال کرنے کا قصد کرتا ہے، اس کے دوسرے معانی مغز کے ہیں یعنی قصیدہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصناف ِ شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی جسم و اعضا میں مغز کو حاصل ہوتی ہے۔ فارسی میں قصیدے کو چامہ بھی کہتے ہیں۔
مرثیہ عربی لفظ ’’رثا‘‘ سے بنا ہے جس کے معنی مردے کو رونے اور اس کی خوبیاں بیان کرنے کے ہیں۔ یعنی مرنے والے کو رونا اور اس کی خوبیاں بیان کرنا مرثیہ کہلاتا ہے۔ مرثیہ کی صنف عربی سے فارسی اور فارسی سے اردو میں آئی، لیکن اردو اور فارسی میں مرثیہ کی صنف زیادہ تر اہلِ بیت یا واقعۂ کربلا کے لیے مخصوص ہے ۔ لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سی عظیم شخصیات کے مرثیے لکھے گئے ہیں۔
پروفیسر انور جمال اپنی کتاب ’’ادبی اصطلاحات‘‘ کے صفحہ نمبر 95 پر قصیدہ اور مرثیہ کا فرق یوں واضح کرتے ہیں :
’’ قصیدے اور مرثیے میں بنیادی فرق زندگی اور موت کا ہے۔ قصیدہ کسی زندہ ہیرو کی مداحی ہے، تو مرثیہ کسی مرجانے والے کی خوبیوں کا بیان دکھ کے ساتھ کرنے کا نام ہے۔