مرثیہ عربی لفظ "رثا” سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں مرنے والے کی تعریف و توصیف۔
گویا مرثیہ ایسی صنفِ شعر ہے جس میں کسی مرنے والے کا ذکر اور اس کی تعریف، حسرت اور غم کے انداز میں کی جاتی ہے۔
ظاہری ہیئت کے اعتبار سے ابتدا میں مرثیے کی کوئی خاص شکل متعین نہ تھی۔ شعرا کبھی غزل کی طرح متفرق اشعار میں اظہارِ غم کرتے تھے اور کبھی مثلّث، مربع، مخمس، مسدس، ترکیب بند میں۔ یعنی ہر شکل میں مرثیے لکھے گئے، مگر بعد میں مسدس رائج ہوگئی اور دوسری تمام ہیئتیں متروک ہوگئیں۔
اردو کے تمام بڑے مرثیہ نگاروں نے مسدس ہیئت میں مرثیے لکھے ہیں۔
میر انیسؔ کے مرثیہ کا ایک بند ملاحظہ ہو:
وہ بہشتی نے کیا، جس کو وفا کہتے ہیں
ہم انہیں عاشقِ شاہِ شہدا کہتے ہیں
ان کو قبلہ تو انہیں قبلہ نما کہتے ہیں
جو بہادر ہیں، وہ شمشیرِ خدا کہتے ہیں
عشقِ سردار و علمدار کا افسانہ ہے
وہ چراغِ رہِ دیں ہے تو یہ پروانہ ہے