پیروڈی کا لفظ "پیروڈیا” سے بنا ہے، جس کے لغوی معنی "جوابی نغمہ” کے ہیں۔
اصطلاح میں وہ صنفِ ظرافت (نظم یا نثر) ہے جو کسی کے طرزِ نگارش کی طرز اور نقل میں لکھی گئی ہو، مگر اصل نگارش کے الفاظ و خیالات کو اس طرح بدل دیا جائے کہ مزاحیہ تاثرات پیدا ہوجائیں۔ پیروڈی میں کسی کی نگارش کی تقلید کرکے اس کے اسٹائل یا خیالات کا مذاق اڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پیروڈی نظم کے ساتھ مخصوص نہیں۔ اُردو میں نثری پیروڈیاں بھی ملتی ہیں مگر نسبتاً کم۔
پیروڈی کا اُردو ترجمہ "تحریف” کیا گیا ہے، اسے مضحکہ خیز تصرف یا لفظی نقالی بھی کہہ سکتے ہیں۔
پیروڈی کی مثالیں ملاحظہ ہوں:
اصل شعر (جو کہ سعدیؒ کا ہے)
کریما بہ بخشائے برحالِ ما
کہ ہستم اسیرِ کمندِ ہوا
پیروڈی (جو اکبر اِلٰہ آبادی نے کی)
کریما بہ بخشائے برحالِ بندہ
کہ ہستم اسیرِ کمیٹی و چندہ
اصل شعر (جو احمد فرازؔ کا ہے)
ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فرازؔ
کچا تیرا مکان ہے، کچھ تو خیال کر
پیروڈی (جو اک مجازؔ نامی شاعر نے کی)
ان لڑکیوں سے دوستی اچھی نہیں مجازؔ
بچہ تیرا جوان ہے، کچھ تو خیال کر

(رفیع الدین ہاشمی کی تالیف ’’اصنافِ ادب‘‘ مطبوعہ ’’سنگِ میل پبلی کیشنز‘‘2008ء، صفحہ 68 تا 69 سے ماخوذ)