ابوالاعجاز حفیظ صدیقی اپنی تالیف ’’ادبی اصطلاحات کا تعارف‘‘ (مطبوعہ ’’اسلوب لاہور‘‘، اشاعتِ اول، مئی 2015ء) کے صفحہ 154پر رقم کرتے ہیں: ’’علمِ بدیع کی اصطلاح میں صنعتِ تفریق سے مراد ایک نوع کی دوچیزوں میں فرق ظاہر کرنا، جیسے زکیؔ کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
عشق میں نسبت نہیں بلبل کو پروانے کے ساتھ
وصل میں یہ جان دے ، وہ ہجر میں جیتی رہے
بلبل اور پروانہ دونوں کا عشق مشہور ہے، لیکن یہاں شاعر نے مصرعۂ ثانی میں ان کے درمیان فرق کر دکھایا ہے۔‘‘
اس طرح مولوی نجم الغنی (رام پوری) ’’بحر الفصاحت‘‘ کی جلد ششم و ہفتم (مرتبہ ’’سید قدرت نقوی‘‘، مطبوعہ ’’مجلسِ ترقیِ اُردو ادب لاہور‘‘، طبعِ سوم، اکتوبر 2017ء) کے صفحہ نمبر 244 پر رقم کرتے ہیں:’’یعنی ایک نوع کی دو چیزوں میں فرق ظاہر کریں، جیسے اس شعر میں، جعفر علی خاں زکیؔ:
عشق میں نسبت نہیں بلبل کو پروانے کے ساتھ
وصل میں یہ جان دے ، وہ ہجر میں جیتی رہے
بلبل و پروانہ نوعِ عشق میں شریک ہیں۔ ان میں فرق بیان کیا کہ پروانہ وصل میں جان دیتا ہے اور یہ ہجر میں جیتی رہتی ہے۔‘‘
مولوی صاحب دوسری مثال میرؔ کے اس شعر کی صورت رقم کرتے ہیں:
تجھ کو مسجد ہے، مجھ کو میخانہ
واعظا! اپنی اپنی قسمت ہے
یعنی یہاں واعظ اور شاعر کے درمیان فرق واضح ہے۔
اس بحث کے آخر میں ’’بحرالفصاحت‘‘کے صفحہ نمبر 246 پر مولوی نجم الغنی (رام پوری)، سوداؔ کا ذیل میں دیا جانے والا شعر مع صراحت کچھ یوں رقم کرتے ہیں:
اے ابر! قسم ہے تجھے رونے کی ہمارے
ٹپکا تری آنکھوں سے کبھی لختِ جگر بھی؟
آنکھ اور ابر، پانی کے گرانے میں مشابہ ایک دوسرے کے ہیں۔ مگر ان میں باعتبار لختِ جگر کے ٹپکنے کے فرق کردیا۔