وہ پکی عمر کا اک نفیس شخص تھا۔ سر کے بال درمیان سے اُڑے ہوئے تھے جبکہ کناروں پہ ابھی بھی خوب گھنے تھے۔ اُس کی تیز آنکھوں میں ذکاوت موجود تھی۔ رنگ دودھیا سفید اور قدرے سرخی مائل تھا۔ قدمیانہ اور آواز متناسب۔ رنگ لگی ہلکی داڑھی والے خوبصورت چہرے کے گرد نور کا ہالہ محسوس ہورہا تھا۔ آخر سادات فیملی کا تعلق دار تھا اور پیر بابا اور میاں قاسم بابا کا نواسہ تھا۔ وہ میرے پہلو ہی میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہ بھی میری طرح کوٹنئی کے مشاعرے پہ آیا ہوا تھا۔ چوں کہ ہماری کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی، اس لیے ہم اک دوسرے کے لیے انجان تھے۔ حالاں کہ چند ہی روز پہلے اُس نے اپنا پہلا شعری مجموعہ دستخط ثبت فرما کر مجھے تحفتاً بھیجا تھا۔ دو سو چھیاسی صفحات کی یہ مجلد کتاب اپنے ظاہری ڈیل ڈول میں بڑی سادہ سی دِکھتی ہے۔ بالکل سفید ٹائٹل پہ سرخ گلاب کی چھوٹی سی اِک کونپل کے نیچے چار قدموں کے نشانات تھے، جس کے نیچے لکھا تھا ’’سید محمود ہاشمی۔‘‘ کتاب کا نام بھی بڑا غور طلب تھا: ’’خالونہ او خاپونہ۔‘‘ اس کی ’’خاخا‘‘ کی تکرار میں نہ صرف صوتی آہنگ ہے بلکہ شاعرانہ ترنگ بھی دکھائی دیتا ہے۔ اسی ’’خاخا‘‘ میں اگر اِک طرف محبوب کی طرف سے رضا مندی کا رجائی پہلو نکلتا ہے، تو دوسری طرف تنبیہ اور معنی خیز طنز کے تہہ در تہہ پہلو بھی پوشیدہ دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف دیکھا جائے، تو ’’خالونہ‘‘ میں محبوبانہ رومان مخفی دِکھتا ہے اور ’’خاپونہ‘‘ میں اسلاف کی وہ نشانیاں مراد نظر آتی ہیں جنہیں ہم غیر محسوس انداز میں نظر انداز کرکے پسِ پشت ڈالے جا رہے ہیں بلکہ فراموش کئے جا رہے ہیں۔ گویا اس نام سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ اس کتاب میں محبوب کے خال سے لے کر اسلاف کے ماضی و حال تک کا تمام حصہ ورق در ورق شعروں کی صورت میں موجود ہے۔

 درشخیلہ (چنالہ) کے رہنے والے اس شخص بارے میں نے سن رکھا تھا کہ بر سوات میں یہ وہ واحد بندہ ہے جس نے پہلی مرتبہ یہاں ادب کی قندیل روشن کی۔ گھر گھر اور در در جاکر ادب کے متوالوں کو تلاشا اور انہیں قومی دھارے میں لانے کے لیے راغب کیا۔ ’’مشال ادبی ٹولنہ‘‘ کی داغ بیل ڈالی اور بارہ سال تک اس کی صدارت کی۔ بعد ازاں دوسروں کو صدارت سونپ کر خود رہبری پہ لگ گئے۔

درشخیلہ (چنالہ) کے رہنے والے اس شخص بارے میں نے سن رکھا تھا کہ بر سوات میں یہ وہ واحد بندہ ہے جس نے پہلی مرتبہ یہاں ادب کی قندیل روشن کی۔ گھر گھر اور در در جاکر ادب کے متوالوں کو تلاشا اور انہیں قومی دھارے میں لانے کے لیے راغب کیا۔ ’’مشال ادبی ٹولنہ‘‘ کی داغ بیل ڈالی اور بارہ سال تک اس کی صدارت کی۔ بعد ازاں دوسروں کو صدارت سونپ کر خود رہبری پہ لگ گئے۔

درشخیلہ (چنالہ) کے رہنے والے اس شخص بارے میں نے سن رکھا تھا کہ بر سوات میں یہ وہ واحد بندہ ہے جس نے پہلی مرتبہ یہاں ادب کی قندیل روشن کی۔ گھر گھر اور در در جاکر ادب کے متوالوں کو تلاشا اور انہیں قومی دھارے میں لانے کے لیے راغب کیا۔ ’’مشال ادبی ٹولنہ‘‘ کی داغ بیل ڈالی اور بارہ سال تک اس کی صدارت کی۔ بعد ازاں دوسروں کو صدارت سونپ کر خود رہبری پہ لگ گئے۔ تقریظ سے پتا چلتا ہے کہ بچپن ہی سے آپ کو علمی ماحول ملا۔ زمانۂ طالب علمی میں کالج میگزین کے لیے انگریزی میں بھی کچھ لکھا۔ بعد ازاں شاعرِ مغرب ’’گوئٹے‘‘ کے ملک جرمنی گئے، جہاں جرمن ادب میں بھی خوب گل بوٹے کھلائے لیکن اپنی مادری زبان کا دامن کبھی نہ چھوڑا۔ ’’خالونہ او خاپونہ‘‘ آپ کا شعری سرمایہ ہے۔ وکیل خیرالحکیم حکیم زیٔ اور ان کے بھائی پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زیٔ نے کتاب پہ اپنی فکر و نظر کے دُر لنڈھائے ہیں۔
آپ کے موضوعات کم و بیش وہی ہیں جو عمومی طور پر ہمارے گرد و پیش میں عوام کے ذہنوں میں گردش کرتے رہتے ہیں، یعنی سماجی ناہمواری، طبقاتی کشمکش، مذہب اور ثقافتی اقدار سے دوری، نظام سے بد ظنی، ماضی کی یادیں، عدم مساوات کا رونا وغیرہ وغیرہ، جبھی تو لکھتے ہیں۔
چہ دے ملک کے د زور ظلم انتہا دہ
ہر سڑے پہ جڑا سر لکہ ماشوم دے
د ایوب پہ دے شعرونو خفہ نہ شئی
دا د ہر سڑی آواز دے خو منظوم دے
کتاب، جدت اور روایت کا سرچشمہ ہے۔ مجھے جو چیز منفرد اور اچھی لگی وہ پشتو زبان کے معیوب ہوتے نام ہیں، جنہیں سید صاحب نے شعروں کے قالب میں ڈھال کر محفوظ کیا ہے۔ اسلاف کی کھوئی ہوئی اقدار، ثقافتی ورثے کی ترسیل اور معدوم ہوتی ہوئی چیزوں کے نام جن سے ہماری نئی نسل نا آشنا ہے، اُنہیں پھر سے زندہ کرنے کی حتی المقدور کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً
نہ مانڑو شتہ، نہ قاشقاش شتہ، نہ نرسوے اریڑہ شتہ
نہ ملخوزی نہ سپیرکئی شتہ، نہ د سمے از غکے شتہ
کلام میں سلاست اور روانی کے ساتھ ساتھ پختگی اور برجستگی بھی موجود ہے۔ لکھتے ہیں:
د گفتار سڑی بے سیار دی پہ دنیا کی
د کردار سڑی پہ شمار دی معدودہ دی
د راتلونکی ژوند خادی غواڑہ ایوبہ
د دنیا خوشحالئی ٹولے نابودہ دی
ذرا دیکھئے صنعتِ تضاد کو کس اچھوتے انداز میں باندھتے دکھائی دیتے ہیں:
گندگی دہ گندگی دہ گندگی دہ
پہ دے ملک کی سہ د شرم زندگی دہ
ماحول سخا دے، ذہن سخا دے، نظر سخا دے
عزت نشتہ، سراسر شرمندگی دہ
ذرا تعلی کا انداز بھی دیکھئے۔
بے عقلانو تہ بہ خس د کوسے خکارم
عاقلانو تہ زہ کانڑے بے بہا یم
ذرا اس شعر کی نازک خیالی تو ملاحظہ ہو:
ستا د زلفو ہر یو تار پلِ صراط دے
ستا جنت تہ د اُوربل رسیدل گران دی
آپ کی غزل میں رکھ رکھاؤ کا برتاؤ تو اپنی جگہ لیکن جو نزاکت اور بانکپن آپ کی نظم میں دکھائی دیتا ہے، وہ اچھوتا بھی ہے اور لاجواب بھی۔ ’’زما کلے‘‘، ’’زاڑہ یادونہ‘‘، ’’ڈینگی‘‘، ’’پختو ژبہ‘‘، ’’سپئی او منزریٔ‘‘، ’’اشر‘‘ اور ’’خواگونہ یادونہ‘‘ آپ کی نمائندہ نظمیں ہیں۔ لیکن کتاب کے ماتھے کا جھومر ایک سوچو دہ اشعار کی طویل نظم ’’خاپونہ‘‘ ہے، جس میں پوری پختون ثقافت کو کمال ہنرمندی سے نظم کیا گیا ہے۔ یقینا اسے ایم اے کورس کا حصہ بننا چاہئے۔
نمونے کے طور پر اس کے چند اشعار پیش کئے جاتے ہیں۔
د یو سو ورزو د پارہ بل وطن تہ وومہ تلے
اوس چی راغلمہ وطن تہ نہ می زائے شتہ نہ زیگے شتہ
سہ سودا می شوہ راپورتہ، زہ پہ منڈہ کورتہ راغلم
نہ ٹوکریٔ می د سبو شتہ، نہ کیچاڑ شتہ نہ چارڑے شتہ
نہ ببوزے مچ بنڑک شتہ، نہ امیل د اگو ماتو
نہ د سنڑ اور بلونکے، نہ ئی چڑ نہ بٹولے شتہ
چی ناساپہ می نظر شو د سھا پہ تماشہ شوم
نہ د اوگی پہ گیڈیٔ شتہ، نہ وچ کڑے مرچکے شتہ
آپ کی شاعری سہلِ ممتنع کا نمونہ ہے۔ گو کہ کلام میں رومان کا بہت کم حصہ موجود ہے لیکن جہاں ہے۔ وہاں اپنی تمام تر جولانیوں اور حشر سامانیوں سمیت اپنا آپ منواتا ہے۔ ذرا ان شعروں کو دیکھئے، جن میں تشبیہ، استعارے اور کنایے کے تمام تر رنگ دھنک کی صورت موجود ہیں۔
سرہ گلونہ د اوربل سرہ پہ جنگ دی
چمنونہ د زنگل سرہ پہ جنگ دی
زما یار پہ آئینہ کی زان تہ گوری
دوہ گلونہ لہ یو بل سرہ پہ جنگ دی