قارئین کرام! ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں، جس میں شاعر بقدرِ نمک اور ’’متشاعر‘‘ تھوک کے حساب سے پائے جاتے ہیں۔ آئیے، سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’شاعر‘‘ اور ’’متشاعر‘‘ میں فرق کیا ہے؟
پروفیسر انور جمال اپنی تالیف شدہ کتاب ’’ادبی اصطلاحات‘‘ کے صفحہ نمبر 156 پر رقم کرتے ہیں: ’’ایسا شخص جو معمولی سی موزونیِ طبیعت کے باعث مصرعے موزوں کرلیتا ہو جب کہ اس میں ’’خلقی‘‘ صفات نہ ہوں، اُسے متشاعر کہتے ہیں۔ ‘‘
پروفیسر صاحب اصلی شاعر کی خصوصیات کے بارے میں اسی صفحہ پر لکھتے ہیں کہ قوتِ متخیلہ، نفسیاتی ژرف بینی، شدتِ احساس، تیز مشاہدہ، طبعِ موزوں اور ترکیب سازی اصل شاعر کی خصوصیات ہیں۔
اب اگر اس کسوٹی پر آج کل سوشل میڈیاپر ’’سخن سرائی‘‘ کرنے والوں کو پرکھا جائے، تو بصد احترام نسخے کو بھی کوئی شاعر نہیں ملے گااور ’’متشاعر‘‘ لاتعداد مل جائیں گے۔ برادرم ’’مارک زکر برگ‘‘ کا تخلیق کردہ میڈیا اگر ایک طرف محروم طبقات کی ترجمانی کی خاطر ایک انوکھا پلیٹ فارم ثابت ہوا، تو دوسری طرف ’’متشاعروں‘‘ اور ’’فیس بُکی صحافیوں‘‘ کی وہ تعداد سامنے آئی کہ ہر دوسرابندہ یا تو بیاض بغل میں دابے کوئی تازہ تیار شدہ کلام کسی کو سنانے اس کے پیچھے بھاگا جا رہا ہے، یا پھر دو سو، دو سو پچاس روپے کے عوض نیلے، پیلے، لال یا ہرے رنگ کے ’’لوگو‘‘ سے مزین مائک لیے حامد میر صاحب کو پیچھے چھوڑنے کی غرض سے کبھی کسی معزز ڈاکٹر کو قصائی ثابت کرنے پر تُلا ہوا دکھائی دیتا ہے، تو کبھی اُسے کسی بے چارے ٹریفک وارڈن کو رشوت خور ثابت کرنے کی سعی فرماتے دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ میں بہک کر کہاں نکل گیا۔ آج کی نشست نوجوان شاعر علی خان امیدؔ کے شعری مجموعہ ’’کافرو تہ می بوزئی‘‘ پر تاثرات پیش کرنے کے حوالہ سے مختص تھی اور میں شاعر و متشاعر اور صحافی و غیر صحافی کا قضیہ لے کر بیٹھ گیا۔
علی خان امیدؔ کو آج سے سال پہلے ’’خپل کور آڈیٹوریم‘‘ میں مترنم انداز میں اک غزل پڑھتے سنا اور دم بخود رہ گیا، مطلع پیشِ خدمت ہے
پہ قدم قدم ناکام دے، بس کافرو تہ می بوزئی
دلتہ عدم استحکام دے، بس کافرو تہ می بوزئی
غزل کمال کی تھی، اُس پر طرہ امیدؔ کا مترنم انداز تھا، یعنی چپڑی اور دو دو۔ اس روز کے بعد جہاں بھی امیدؔ کو دیکھتا، احترام ملحوظِ خاطر رکھتا۔ وہ بھی بدلے میں آج تک احترام ہی سے پیش آتے ہیں۔ گویا جب بھی آمنا سامنا ہوتا ہے ’’من ترا حاجی بگویم، تو مرا حاجی بگو‘‘ والی کیفیت ہوتی ہے۔
امیدؔ کی شاعری کا تنقیدی جائزہ محترم عطاء اللہ جانؔ ایڈوکیٹ، عثمان اولس یارؔ، برادرم عطاء الرحمان عطاؔ اور استاد حنیف قیسؔ جیسے پشتو ادب کے شناوروں پر چھوڑتے ہیں اور خود ایک ’’متشاعر‘‘ کی حیثیت سے امیدؔ کی شاعری کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔ 336 صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتاب میں غزلوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس میں نظم بقدرِ نمک شامل ہے، تو بے جا نہ ہوگا۔ غزل میں صنعتوں کا استعمال (وہ چاہے شعوری ہو یا غیرشعوری) امیدؔ کی شاعری کو چار چاند لگاتا ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق صنعتِ تضاد کی یہ مثال ملاحظہ ہو:
د مینی روح ھڈو چا دلتہ پیژندلے نہ دے
مینہ د گٹی او تاوان د دائری نہ چورلی
اب صنعتِ مراعاۃ النظیر کی مثال ملاحظہ ہو:
چا کڑی لمنی ڈکی چا بہ پہ چونگونو وڑمہ
پہ ہر قدم شوم پائمال، لکہ د شگو دیوال
’’مملکت خداداد‘‘ کی حالیہ صورتحال کو صنعتِ تفریق کا سہارا لے کر کتنے خوبصورت پیرائے میں بیان کرتے ہیں کہ
پہ چا نامہ چی د قاتل پوری دہ
د ھغہ خلکو احترام کیگی
صنعتِ تلمیح کی یہ مثال گویا کسی انگوٹھی میں نگینے کی طرح جڑی ہوئی محسوس ہوتی ہے:
کڑو زما بابا ئی لہ جنتہ بہر
بوٹی د غنم سرہ پختو کوہ
امیدؔ کی تقریباً ہر غزل میں صنعتِ تضاد کے دو تین شعر باآسانی ہاتھ آ جاتے ہیں، نمونہ کے طور پر یہ شعر ملاحظہ ہو:
رنگ می دے تور د خپل انغری پہ لوگو
پٹ پہ سینہ کی زڑگے سپین لرمہ
پورے مجموعہ میں لف و نشر کی اس سے بہتر مثال شائد ہی کوئی اور ہو:
بولی شروع وہ پہ بنڑو او سنڑو
چا اغیستل چنار نختر پہ تلہ
یوسف زئی پشتونوں کے دکھ کو صفحہ نمبر70 پر درج غزل کے ایک شعر میں صنعتِ تلمیح کا سہارا لیتے ہوئے کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
ھغہ ھم د کربلا نہ کمہ نہ وہ
الغ بیگ چی یوسف زی سنگسارول
صنعتِ تضاد کا ایک اور نمونہ ملاحظہ ہو:
سومرہ سوچہ مینہ کووم ستا سرہ
سومرہ ملاوٹ دی پہ خندا کی دے
ویسے تو قطعات میں بابائے قطعہ عبدالرحیم روغانیؔ کا کوئی ثانی نہیں، مگر اُمید کے قطعات بھی خاصے کی چیز ہیں، جیسے یہ کہ:
زان لہ د زان آبادول ھم زدہ کہ
پہ بل آباد پہ بل برباد سڑیہ
د شعور لار دی خپلہ کڑی کنہ؟
د زندہ باد او مردہ باد سڑیہ
اک نظم ’’زہ دَ دی خاوری حلالی بچے یم‘‘ بھی پڑھنے لائق ہے، یہ بند ملاحظہ ہو:
زہ دَ جدت او دَ رنڑا قائل یم
دَ ترقئی او ارتقا قائل یم
دَ ایجاداتو دَ اصول قائل یم
زہ دَ ہر علم دَ حصول قائل یم
دَ احمد خان او شیخ ملی بچے یم
زہ دَ دی خاوری حلالی بچے یم
اٹھائیس اُنتیس سالہ جوان ذہنی طور پر جتنا پختہ ہوتا ہے، امیدؔ اس سے دو قدم آگے ہے۔ وجہ شائد وہ محرومیاں ہوں جن کی گودمیں امیدؔ پلا بڑھا ہے۔ مجموعہ میں شامل علی خان امیدؔ کی اپنی رقم کردہ سطور میرے اس دعوے پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہیں۔ یہ محرومیاں ہی تھیں جن کی بدولت علی خان ’’امیدؔ‘‘ بنا۔ ورنہ وہ بھی دیگر ہزاروں مجبور و مقہور پختونوں کی طرح پیدا ہوتا، اپنے حصے کی زندگی جیتا اور بالآخر لقمۂ اجل بن جاتا۔
امیدؔکا یہ مجموعہ ’’شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز‘‘کا شائع شدہ ہے، شعیب سنز کے علاوہ ہر اچھے بک سٹال پر موجود ہے۔ جاتے جاتے ’’بس کافرو تہ می بوزئی‘‘ سے چند منتخب اشعار نذرِ قارئین ہیں۔ یار زندہ صحبت باقی:
د بغاوت چغہ کوہ امیدہؔ
کلہ نا کلہ ماتوہ خاموشی
دلتہ کی سہ وو چی ھغہ ونہ شو
دلتہ کی نور سہ د کیدو پاتی دی؟
تصویر دی خڑ دے خو بخنہ غواڑم
زمونگ پہ کور کی د لوگو راج ؤ
مونگہ دنیا لا تسلیم کڑی نہ دہ
د آخرت پہ حسابونو کی یو
حق ناحقہ زہ پہ دوانڑو کی اکثر گٹمہ
چی دلیل نہ لرمہ ہلتہ کی غویمہ جوڑؤم
سوک پہ روح ئی پوھہ نہ دی او چغو ئی زہ کونڑ کڑم
بس اللہ اللہ رام رام دے، بس کافرو تہ می بوزئی

……………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔