آشوب کے لغوی معنی ہیں ’’بربادی، بگاڑ یا فتنہ و فساد۔‘‘
اصطلاحِ شاعری میں شہر آشوب ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی شہر کی پریشانی، گردشِ آسمانی اور زمانے کی ناقدری کا بیان ہو۔
کسی زمانے میں اردو میں بڑی کثرت سے شہر آشوب لکھے گئے۔ میرزا محمد رفیع سودا اور میر تقی میرؔ کے شہر آشوب، جن میں عوام کی بے روزگاری، اقتصادی بدحالی اور دلّی کی تباہی و بربادی کا ذکر ہے، اُردو کے یادگار شہر آشوب ہیں۔
نظیر اکبر آبادی نے اپنے شہر آشوبوں میں آگرے کی معاشی بدحالی، فوج کی حالتِ زار اور شرفا کی ناقدری کے خوب صورت مرقعے پیش کیے ہیں۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد دلّی پر جو قیامت ٹوٹی، اسے بھی دلّی کے بیشتر شعرا نے اپنا موضوع بنایا ہے، جن میں میرزا غالبؔ، داغؔ دہلوی اور مولانا حالیؔ شامل ہیں۔
میرزا محمد رفیع سوداؔ کے ’’مخمس شہر آشوب‘‘ کا یہ پہلا بند ملاحظہ کیجیے جس میں ناقدریِ زمانہ اور دلّی میں بے روزگاری کا گلہ کیا گیا ہے:
کہا میں آج یہ سودا سے کیوں تُو ڈانواں ڈول
پھرے ہے جا کہیں نوکر ہو، لے کے گھوڑا مول
لگا وہ کہنے یہ اس کے جواب میں دو بول
جو میں کہوں گا تو سمجھے گا تُو کہ ہے یہ ٹھٹھول
بتا کہ نوکری بکتی ہے ڈھیریوں یا تول
(’’اصنافِ نظم و نثر‘‘ از ڈاکٹر محمد خاں و ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، ناشر الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، صفحہ 86, 87 سے انتخاب)