’’منظر او پس منظر‘‘ سیراج الدین سیراجؔ کی نثری کتاب کا نام ہے۔ موصوف بنیادی طور پر تو شاعر ہیں اور کافی اچھی شاعری کرتے ہیں، خصوصاً ان کے قطعات تو اِک خاص حلقے میں زبان زدِ خاص و عام ہیں مثلاً
خکاری چی زوانی لاڑہ بوڈا شومہ
نرم خوراک سخت راباندے ولگی
زان باندے چی ڈیرہ خواری اوکڑمہ
خکلے شم خو وخت راباندے ولگی
سوشل میڈیا پہ تو اُن کا حلقۂ دوستاں اور بھی وسیع ہے۔ وہ اک درویش صفت اور ملنگ ٹائپ انسان ہیں، بڑے بے ضرر اور معصوم۔ لیکن بعض ’’چھیڑخواں‘‘ گاہے بہ گاہے اُن کی چٹکیاں لینے سے باز نہیں آتے۔ وہ چپ سادھے رکھتا ہے، لیکن کبھی کبھی زخمی ناگ کی طرح پھن پھیلا کے شائیں شائیں کرنا بھی شروع کردیتا ہے، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اُن کا یہ اُبال بھی (فطری شرافت کی بدولت) جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔
مذکورہ نثری کتاب میں اُن کے مختلف نوع کے 39 چھوٹے بڑے مضامین، انشایئے اور دیگر خود نوشتی شذرے موجود ہیں۔ بہ ظاہر تو کتاب کا ’’منظر او پس منظر‘‘ نام ہے، لیکن اس میں ’’پیش منظر‘‘ کے کہیں مخفی تو کہیں واضح عندیے بھی موجود ہیں۔ سب سے پہلا ’’پیش منظر‘‘ تو کتاب کا ٹائٹل ہے، جو بہ ظاہر تو ڈراؤنا سا لگتا ہے، جس میں جھریوں بھرے چہرے والی بڑھیا کا بھیانک چہرہ، اُبلتی آنکھ اور معنی خیز تبسم ہمیں ماضی کی طرف لے جاتا ہے جو حقیقت میں ہمارا علامتی آدرش بھی ہے۔ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے۔ جب کہ اسی تصویر کو تھوڑا سا گھما کر دیکھا جائے، تو یہ اِک نوخیز بچی کی معصوم شکل بھی بنتی ہے جو اپنے مستقبل کی طرف دیکھ رہی ہے، جس میں بڑھیا کی ناسٹلجیا کی بجائے بچی کے روشن مستقبل کی رجائی نظر میں اُمید اور آگے بڑھنے کا پیغام بھی موجود ہے۔ اسے کہتے ہیں مصورانہ ’’منظر او پس منظر۔‘‘ گویا اگر شاعر و ادیب لفظوں کے جادوگر ہیں، تو مصور اور خطاط قلم اور مو قلم کے شاہسوار، اللہ اللہ یہی تو فنکاری ہے۔
کتاب کا انتساب انہوں نے اُن پسے اور کچلے ہوئے لوگوں کے نام کیا ہے جو 70 سالوں سے پشت در پشت پستے چلے آرہے ہیں۔ اگلے صفحے پہ کتاب اُن پختونوں کے نام معنون ہے جنہوں نے پختونوں کے روشن مستقبل کے لیے اپنی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ اب معلوم نہیں سیراجؔ صاحب کی نظر کن پختونوں کی طرف ہے جنہوں نے پختونوں کے لیے اپنی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ واللہ اعلم باالصواب۔
کتاب پہ پہلا مقدمہ پروفیسر ڈاکٹر ہمایون ہما کا ہے جنہوں نے ان نثر پاروں کو ’’پیغامیز‘‘ کا نام دیا ہے۔ وکیل حکیم زے نے تو بال سیراجؔ صاحب کی کورٹ میں ڈال کر خود کو اِک طرف کرلیا ہے جب کہ پائندہ محمد خان نے انہیں ناصحانہ مضامین کا نام دیا ہے۔ پرویش شاہین کا خیال ہے کہ سیراجؔ اپنی تحریروں کی بدولت معاشرے میں اخلاقی تبدیلی چاہتے ہیں جب کہ طاہر بونیری نے سیراجؔ کی زندگی، فن اور نظریے پر سیر حاصل مضمون لکھ کر حقِ دوستی ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر علی خیل دریابؔ تو استاد ہیں۔ اُنہوں نے اپنی استادانہ تحریر میں اپنی علمیت کا عرق نچوڑ کر فلیپ کو رنگ بار کیا ہے۔

سیراج الدین سیراجؔ کی تصنیف "منظر او پس منظر” کی فوٹو۔ (تصویر: امجد علی سحابؔ)

کتاب کے پہلے ہی مضمون میں مذہبی ٹھیکیداروں پر طنز کا نشتر چلا کر ’’جائز اور ناجائز‘‘ کے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ سیراجؔ صاحب! احتیاط کیجئے ایسا نہ ہو کہ کہیں یہ لوگ آپ کی اس تحریر ہی کو ’’ناجائز‘‘ نہ کہہ دیں۔ دوسرا مضمون ’’جمہوریت‘‘ بھی طنز یہ ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح اقلیت اکثریت پر حکمرانی کرتی ہے۔ تیسرا مضمون ’’بے کاری‘‘ بھی طنزیہ ہے۔ ’’حیثیت‘‘ میں نایاب بیٹی کا معصومانہ سوال آج بھی ہمارا منھ چڑاتا ہے۔ ’’جواب‘‘ نامی شگفتہ مضمون بھی طنزیہ ہے۔ ’’اعتراف‘‘ میں کردار اور گفتار کے غازیوں پہ چوٹیں ہیں۔ ’’لمحہ فکریہ‘‘ واقعی لمحہ فکریہ ہے۔ ’’پختو‘‘ اِک حقیقی کہانی ہے جس میں قصہ گوئی بھی ہے اور سسپنس بھی۔ یہ بڑے مزے کا مضمون ہے۔ ’’رواجونہ‘‘ ناصحانہ مضمون ہے۔ ’’زغم‘‘ میں بھی ناصحانہ انداز ہے۔ ’’بدلون‘‘ میں اخلاقیات، سیاست اور رشوت کی تکون موجود ہے۔ ’’چاپلوسی‘‘ میں نفسِ مضمون خود ہی موجود ہے۔ ’’یادداشت‘‘ اِک اصلاحی مضمون ہے۔ ’’سبق‘‘ میں سیاسی مداریوں کا اِحاطہ کیا گیا ہے۔ ’’حق تلفی‘‘ بھی طنز کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے، جس میں فکر فردا کے پیش منظر کا رونا رویا گیا ہے۔ ’’محنت‘‘ اِک فکر انگیز مضمون ہے۔ ’’مورنئی ژبہ‘‘ اِک چشم کشا تحریر ہے۔ ’’ناقابل فراموش‘‘ اِک فینٹسی ہے۔ یہ محمد حسین آزاد کے مضمون ’’شہرت عام بقائے دوام‘‘ کی نقل (سرقہ) ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ حسنِ اتفاق ہے۔ سیراجؔ نے آزاد کو پڑھاہی نہ ہوگا۔ ’’معیار‘‘ انتقادِ ادبیات کے گرد گھومتی تحریر ہے۔ ’’دوستی‘‘ میں غرض اور طمع کی ملاوٹ کو آشکارا کیا گیا ہے۔ ’’خوئی خصلت‘‘ میں بشری اور عمرانی پہلوؤں سے پردے سرکائے گئے ہیں۔ ’’احساس‘‘ اِک نفسیاتی مضمون ہے۔ ’’نصیب‘‘ میں تقدیر اور تدبیر کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ ’’پخوا او اوس‘‘ ہماری تہذیبی تقدامت اور سادگی کا مرقع ہے۔ ’’ضعیف الاعتقادی‘‘ ہماری مذہبی روایات کے منھ پر تازیانہ ہے۔ ’’المیہ‘‘ اِک فکر انگیز تحریر ہے۔ ’’اتفاق او نفاق‘‘ میں قوموں کے عروج و زوال کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ’’زور گیری‘‘ اِک اصلاحی مضمون ہے۔ ’’ژوندون‘‘ یہ بھی اک بشری مضمون ہے۔ ’’نظام‘‘ ہماری معاشرتی پہلوؤں کا احاطہ کرنے والا مضمون ہے جس میں استحصال اور طبقاتی کشمکش کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ’’د ملتان سیل‘‘ یہ اک چھوٹا سا سفر نامہ ہے، جس میں اِک طرف این جی اوز کے وافر طعام اور دوسری طرف غربا کو قطار میں ملنے والی دال کا ذکر بڑا دردناک ہے۔ ’’د بر دیر پہ لوری‘‘ یہ بھی اک سفر نامچہ ہے جس میں معروف شاعر بخت زادہ دانش سے ملنے کا احوال درج ہے۔ ’’کردار سازی‘‘ اس مضمون میں اخلاقی تبدیلی کو اصلاحی انداز میں موضوع بنایا گیا ہے جس میں چھوٹے چھوٹے واقعات بڑے دلچسپ اور عبرت ناک ہیں۔ ’’صحت مندی‘‘ اس مضمون میں اک طرف صحت سے کھیلنے والے ڈاکٹروں کے کھلواڑ کا پردہ چاک کیا گیا ہے، تو دوسری طرف مذہبی جنون اور سادگی کا رونا بھی رویا گیا ہے ’’جٹکہ‘‘ اس مضمون میں ایمان داری اور بے ایمانی کی کہانی ہے، جس کا اختتام ایک مزیدار لطیفے سے کیا گیا ہے۔ ’’زاڑہ یادونہ‘‘ یہ مصنف کی اپنی اِک چھوٹی سی خود نوشت ہے جس میں ہماری مٹتی سماجی اور ثقافتی رہن سہن کی کافی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ’’زڑہ سواندے‘‘ یہ کتاب کا آخری مضمون ہے جس میں مصنف کی خدا ترسی اور رحم دلی کا جذبہ اپنے عروج پہ دکھائی دیتا ہے۔ یہی معصوم اور نازک جذبوں والے سیراجؔ الدین سیراج اپنی عملی زندگی میں بھی ایسے ہی بھولے، معصوم اور بے ضرر ہیں جس طرح اس مضمون میں دکھتے ہیں۔
لیجیے صاحبو! رات کے دو بجنے کو ہیں۔ یہ واحد کتاب ہے جو میں نے ایک ہی نشست میں ختم بھی کی اور ساتھ ساتھ کالم بھی لکھتا گیا۔

………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔