ریختی جسے انگریزی میں (Feminish Idiom) کہتے ہیں، نظم کی صورت میں عورتوں کی طرف سے گفتگو کرنے کا نام ہے۔
ریختی کی عمومی تعریف یہ ہے کہ ’’ایسی نظم جو عورتوں کے بارے میں عورتوں کی طرف سے لکھی جائے‘‘ لیکن یہ تعریف اُن ریختیوں کی خصوصیات کا احاطہ نہیں کرتی جو ریختی نگاروں (سعادت اللہ خان رنگین، انشا ء اللہ خان انشاؔ)نے لکھی ہیں۔
بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ ’’وہ نظم جس میں عورت کا عشق عورت کے ساتھ مذکور ہو، ریختی ہے۔‘‘
حقیقت میں ریختی ان تعریفات کے علاوہ کئی اور خصوصیات کی حامل رہی ہے۔ ان کے پیشِ نظر ریختی کو ان لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے: ’’ایسی نظم جس میں دہلی کی پردہ نشیں، عصمت فروش عورتوں کی اصطلاحات و محاورات کی زبان میں عورتوں کے بارے میں ہوس انگیز عشق کا اظہار کیا گیا ہو، ریختی کہلاتی ہے۔‘‘
ان نظموں میں عاشق و محبوب دونوں عورتیں ہوتی ہیں اور ان باتوں کا تذکرہ ہوتا ہے جو عورتوں کو خانہ داری میں پیش آتی ہیں۔ ریختی اور واسوخت دہلی اور لکھنؤ کے طوائف الملوکیت کے دور کی یادگاریں ہیں۔ انشا کے ہم عصر اور قریبی دوست رنگین سعادت اللہ خان نے ریختی کا پورا دیوان لکھا ہے۔
(پروفیسر انور جمال کی تصنیف ادبی اصطلاحات مطبوعہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن صفحہ نمبر 114 سے انتخاب)