عبدالجبار شاہ میاں گل برادران اور دریا کے بائیں جانب کے قبائل کے معاملات ابھی تک طے نہیں ہوئے تھے کہ ادین زئی مسئلہ شدت اختیار کرگیا۔ دریا کے دائیں جانب سوات زیریں میں آباد ادین زئی قبائل یوسف زئی قبیلہ کی اُسی شاخ سے تعلق رکھتے ہیں جس سے کہ سوات بالا کے قبائل کا تعلق ہے۔ وہ اپنے سوات کی ہم قبیلہ قوتوں کی طرح نواب دیر کی رعیت میں شامل تھے اور اپنے انہی بھائی بندوں کی طرح نواب کی حکومت سے نالاں اور ناخوش تھے۔ نواب کے محصولات جمع کرنے والے عملہ سے ناراض ہوکر ان میں سے کچھ نے سوات بالا کے اپنے رشتہ داروں سے مدد چاہی۔ سوات بالا کے لوگوں نے پہلے ہی پولی ٹیکل ایجنٹ سے کہا تھا کہ وہ سوات اور دیر کی سرحد کا از سرنو تعین کرتے ہوئے ادین زئی علاقہ ان کے حوالہ کردے اس لیے کہ یہ اُن کاہے۔ عبدالجبارشاہ کے بھائی نے ان لوگوں کو خط کے ذریعے مشورہ دیاکہ محصول حکام کو اپنے علاقہ سے نکال دیں۔
اس علاقہ سے صرف چترال جانے والی سڑک ہی نہیں گزرتی تھی بلکہ چک درہ میں فوجیوں کی قیام گاہ بھی یہیں پہ تھیں۔ یہ علاقہ چوں کہ ملاکنڈ سے بھی قریب تھا، اس لیے یہاں سواتیوں کی کسی قسم کی کارروائی انگریز حکومت کے لیے بہت ہی پریشانی کا باعث بن سکتی تھی۔ چوں کہ جنگ عظیم برپا تھی جس میں ترک انگریز مخالف اتحاد کا حصہ تھے، اس لیے اس دوران مذہبی شخصیات کی اس علاقہ میں نقل و حرکت باعثِ تشویش تھی۔ اس سے 1897ء جیسی صورتِ حال پیدا ہوسکتی تھی جس کے لیے انگریز سرکارقطعاً تیار نہیں تھی۔ اس لیے اُس نے نوابِ دیر کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا محصول جمع کرنے والا عملہ ادین زئی کے علاقہ میں نہ بھیجے، ادین زئی کے جرگہ کو پولی ٹیکل ایجنٹ سے ملاقات کے لیے کہا اور تھانہ اور رانی زئی کے سرکردہ خوانین کے ذریعے سوات بالا کے جرگوں کو خطوط ارسال کیے جس میں انہیں ادین زئی سے دور رہنے کے لیے متنبہ کیا گیا تھا۔ خوانین یہ خطوط لے کر بنفسِ نفیس سوات بالا گئے، تاکہ’’انہیں جلد بازی میں کوئی قدم اٹھانے سے روک سکیں۔‘‘
سوات بالا کے خوانین اور لوگ شاید یہ مشورہ مان لینے پر تیار ہوجاتے لیکن سنڈاکئی بابا صورتِ حال پر چھاگئے۔ وہ اُس وقت چند اخورہ (کبل) میں موجود نہیں تھے، جب انگریز حکومت کے فرستادہ خوانین اور سوات بالا کے جرگہ کے درمیان بات چیت ہورہی تھی لیکن انہیں اس میں شرکت کے لیے بلا بھیجا گیا۔ سوات بالا کے جرگہ کا اصرار تھا کہ’ ’اس میں سنڈاکئی بابا کی موجودگی ضروری ہے۔‘‘ وہ دوسرے دن صبح پہنچا۔ برطانوی حکومت کا پیغام جاننے اور اُن کے خطوط دیکھنے کے بعد اُس کا ردِ عمل شدید تھا۔ اُس نے وہ خطوط لے کر پھاڑ ڈالے اور ان ٹکڑوں کوپاؤں سے مسل ڈالا اور لوگوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد کی تلقین کی۔ سرتور فقیر اور دیگر لوگوں کو بھی مدد کے لیے خطوط بھیجے گئے۔ لشکر بنانے کی تیاریاں شروع کی گئیں۔ مزہ کی بات یہ ہے کہ اس پورے معاملہ میں سید عبدالجبار شاہ (سوات کا بادشاہ)کو بالکل نظر انداز کردیا گیا۔ ان سے مشورہ کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ 17 جون 1915ء کو ملاکنڈ کے پولی ٹیکل ایجنٹ نے کرنل لاکھ سے کہاکہ دو ڈبل کمپنی فوج چکدرہ بھیجی جائے۔ صوبہ کے چیف کمشنر نے صورتِ حال کو یوں بیان کیا: ’’طاقت کی نمائش ہی حملہ کو روکنے کا بہترین طریقہ ہے۔ چکدرہ کو بہرصورت مستحکم بنانا ہوگا۔ جنرل آفیسر کمانڈنگ فرسٹ ڈویژن سے میں نے کہہ دیا ہے کہ بغیر کوئی تاخیر کیے ملاکنڈ مووایبل کالم کو چکدرہ روانہ کردیا جائے۔ ممکن ہے کہ اس قدم سے سوات بالا کے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو، لیکن اگر انہوں نے واقعتا حملہ کردیا اور انہیں اگر اس میں ذرا بھی کامیابی ملی، تو پھر دریائے کابل سے دریائے سندھ تک کا پورا علاقہ اٹھ کھڑا ہوگا۔‘‘
گائیڈز کا سوار دستہ درگئی پہنچا اور 19 جون کو شام چھ بجے چک درہ پہنچ گیا۔ 19 جون ہی کو نیک پی خیل اور سوات بالا کے جرگہ کی طرف سے پولی ٹیکل ایجنٹ کو ایک خط ارسال کیا گیا جس میں ادین زئی مسئلہ کو موضوعِ بحث بناتے ہوئے کہا گیا کہ اگر ان کی بات مان لی جائے اور اس علاقہ کو نواب سے لے کر ان کے حوالہ کیا جائے، تو انگریز سرکار کی سڑک، ٹیلی گراف، چھاؤنیوں اور چوکیوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا لیکن ادین زئی کے لوگ خود علاقہ پر حکمرانی کریں گے یا عبدالجبار شاہ کو حکمران تسلیم کریں گے۔ انہوں نے مزید کہاکہ تھانہ اور الہ ڈھنڈ کے خوانین کی آمد اور پولی ٹیکل ایجنٹ کے احکامات کی وجہ سے انہوں نے فی الوقت اپنی کارروائی روک دی ہے۔ انہوں نے اپنے معاملہ کو صوبہ کے چیف کمشنر کے سامنے بھی پیش کیا اور اُس سے کہاکہ سر تور فقیر ادین زئی کے لوگوں کی مدد کے لیے تیار تھا لیکن اُن کے کہنے پر رک گیا ہے۔ تاہم پولی ٹیکل ایجنٹ نے انتہائی دھمکی آمیز لہجہ اختیارکرتے ہوئے ان سے کہا کہ برطانوی حکومت ’’تمہیں ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ تمہارا جب جی چاہے اپنی تیار یوں کے ساتھ مداخلت پر آمادہ ہوجاؤ۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں ادین زئ سے دور رہو۔ ذرا یاد کروکہ جب تم نے ہوش و حواس کھوکر سرتور فقیر کا ساتھ دیا، تو کیا ہوا؟ تمہارے اور تمہارے ملاؤں کے رویّہ نے مجھے فوج بھیجنے پر مجبور کردیا ہے جوکہ اب چک درہ میں موجود ہے اور میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر تم میں سے کسی ایک نے بھی سرکاری سڑک پر قدم رکھا، تو میں اسے تمہارے خلاف استعمال کروں گا اور قیامت کے دن اس کے نتائج کی ذمہ داری تمہاری ہوگی۔‘‘
پولی ٹیکل ایجنٹ نے 22 جون 1915ء کی اپنی رپورٹ میں لکھاکہ’’سوات بالا میں موجود تناؤ میں لگتا ہے کمی آگئی ہے۔ اور خیال ہے کہ کوئی جرگہ مجھ سے ملنے آئے لیکن چیف کمشنر اور مجھے ارسال کردہ خطوط کے جواب کا انتظار ہو رہا ہے۔‘‘ اس موقع پر عبدالجبار شاہ بھی آگے آتا ہے اور پولی ٹیکل ایجنٹ کے نام اپنے ایک خط میں ادین زئی معاملہ کی وکالت کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ بات اتنی بڑھ کیوں گئی؟ اُس نے گِلہ کیا کہ اُسے کوئی خط نہیں بھیجا گیا اور انگریز حکومت کو اپنی وفاداری کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ اُس پر آزمائشی طورپر اعتماد کرکے پر کھا تو جائے۔ مزید یہ کہ’ ’ایرے غیرے لوگوں کی سوچ کو حکومت کی (عبدالجبار شاہ کی) سوچ نہ سمجھا جائے۔‘‘ پولی ٹیکل ایجنٹ نے جواب میں کہا کہ’ ’وہ صرف نمائندہ جرگہ سے بات کرے گا۔‘‘ تاہم چیف کمشنر نے پولی ٹیکل ایجنٹ سے کہا کہ ’’ہمارا عبدالجبارشاہ سے کوئی جھگڑا نہیں۔ اگر وہ ایک نمائندہ جرگہ لے کر آتا ہے، تو تم ملنے سے انکار مت کرنا۔‘‘ عبدالجبار شاہ نے چیف کمشنر کو ایک طویل خط لکھا جس میں نوابِ دیر کے خلاف سوات کے معاملات کو اٹھایا اور خود کو انگریز سرکار کا حامی قرار دیا۔ 9 جولائی 1915ء کوسوات بالا کے خوازوزئی شاخ کے قبائل کا جرگہ پولی ٹیکل ایجنٹ سے ملاقات کے لیے آیا۔ اس ملاقات کے نتیجہ کو ’’مکمل طورپر اطمینان بخش قرار دیا گیا۔‘‘ اس مشکل وقت میں جن مختلف لوگوں نے برطانوی حکومت کا ساتھ دیا ان کی مدد اور خدمات کی تعریف کرتے ہوئے پولی ٹیکل ایجنٹ نے میاں گل برادران کی بیش بہا خدمات کا خصوصی تذکرہ کیا۔
صورتِ حال بہتر ہوئی لیکن زیادہ لمبے عرصے کے لیے نہیں۔ سنڈاکئی بابا، حاجی صاحب آف ترنگزئی اور دیگر انگریز مخالف عناصر سے رابطہ میں تھے۔ بالآخر سرتور فقیر نے بھی سنڈاکئی بابا کی مخالفت ختم کرکے اگست 1915ء میں انگریزوں کے خلاف ایک دوسرے سے ہاتھ ملالیے۔ قبائل کا ردِ عمل چوں کہ کوئی زیادہ گرم جو شانہ نہ تھا، اس لیے 20 اگست کو سر تور فقیر نے اپنے گھر کی راہ لی اور ’’سنڈاکئی بابا بھی کڑاکڑ کے راستے اپنے چند حامیوں کے ہمراہ بونیر روانہ ہوئے۔‘‘
سنڈاکئی بابا کے رخصت ہونے سے لوگ اور بادشاہ (عبدالجبار شاہ) پریشان ہوگئے۔ لوگ نوابِ دیر کے خوف کی وجہ سے اُس کی حمایت کے خواہاں تھے ا ور بادشاہ کی پریشانی کا سبب یہ تھا کہ اُس نے حال ہی میں ڈپٹی کمشنر ہزارہ کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا تھا اور یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ سنڈاکئی بابا کو رام کرنے کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرے گا۔ پھر اُس نے یہ بھی محسوس کیا کہ اگر یہ ملا بیچ میں سے نکل جائے، تو اُس کی حکومت کا بڑا سہارا ختم ہوجائے گا۔ بادشاہ نے پہلے تو اپنے آدمی بھیج کر اُسے بلانے کی کوشش کی۔ ان کے ناکام ہونے پر وہ خود گیا اور اُسے واپس آنے کے لیے کہا۔ وہ اس شرط پر واپس آنے پر راضی ہوا کہ بادشاہ اور قبائل اُس کے ساتھ مل کر ایک متحدہ اقدام کے لیے تیار ہوں۔ چیف کمشنرنے،جو اُس وقت ملاکنڈ کے دورہ پر آیا ہوا تھا، معاملات کی یوں تصویر کشی کی۔ ’’میاں گل برادران اخوند آف سوات کے پوتے، جوکہ بادشاہ اور سنڈاکئی بابا سے حسد کرتے ہیں اُن کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اور ہمارے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔‘‘
سنڈاکئی بابا اپنے قبائلی حامیوں کے ساتھ دریائے سوات کے بائیں کنارے پر تھے جب کہ سوات کے بادشاہ عبدالجبار شاہ دریا کے دائیں کنارے والے لشکر کے ساتھ تھے۔ 28 و 29 اگست کی رات کو جنرل بینن کے ملاکنڈ موو ایبل کالم کے کیمپ پر حملہ کیا گیا۔ یہ خاصا شدید حملہ تھا جو چھے گھنٹے تک جاری رہا۔ جنرل بینن کی توپوں نے سواتیوں پر اتنی شدید گولہ باری کی کہ انہیں پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ 29 اگست کی سہ پہر سنڈاکئی بابا غائب ہوگئے، لیکن انہیں ڈھونڈ کر چندا خور ہ لایا گیا۔ اس لیے کہ دائیں جانب کے قبائل نوابِ دیر کے خلاف اُن کی مدد سے محروم نہیں ہونا چاہتے تھے۔
انگریز سرکار کے خلاف یہ اقدام ناکام ہوگیا۔ سنڈاکئی بابا بھی اس دوران سوات سے چلے گئے، لیکن اس معاملہ نے عبدالجبار شاہ کی کمزوری برطانوی حکومت پر عیاں کردی۔ اپنے لوگوں پر اُس کی کمزور گرفت نے اُس کی حیثیت کو مشکوک بنا دیا۔ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن 1901ء کی شِق 21کی ذیلی شِقوں ڈی اور ای کے تحت سوات بالا اور بونیر کا برطانوی حکومت نے بہ طورِ سزا 25 اگست 1915ء کو معاشی گھیراؤ کرلیا۔  (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 68 تا 71 سے انتخاب)