عالمی سطح پر یہاں کی تزویراتی اہمیت کے پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جغرافیائی سیاسی صورتِ حال میں سوات کا محلِ و قوع اور حیثیت 1895ء میں بھی واضح ہوکرآئی۔ اگرچہ امبیلہ مہم سے یہ بات بالکل صاف ہوگئی تھی کہ پہاڑوں کے یوسف زئی پردہ شکنی کے خطرہ کے جواب میں کتنی شدید مزاحمت کرسکتے ہیں، لیکن چترال ریلیف پہنچانا اشد ضروری تھا۔ اس لیے کہ روس قریب ہی سے اس بات کا بہ غور جائزہ لے رہا تھا۔ گلگت کا راستہ بہت لمبا اور پُر خطر تھا۔ اس لیے پہاڑی یوسف زئی کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لینے کے سوا چارہ نہیں تھا۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ دو اطراف سے چترال جایا جائے۔ بڑی فوج تو ملاکنڈ کے راستہ سے جائے جب کہ دوسری چھوٹی فوج اور کمک کے لیے گلگت کا راستہ اختیار کیا جائے۔
1878ء کے بعد سے انگریزوں نے مشرقی ہندوکش سلسلہ میں اہم دروں کے قبضہ کے لیے مسلسل رواں لائحہ عمل اختیار کیا۔ سب سے پہلے انہوں نے علاقہ میں اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے کشمیر کے مہاراجہ کے ذریعہ گلگت ایجنسی کی تشکیل کی۔ 1892ء میں چترال میں موجود سیاسی انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے چالٹ اور ہنزہ میں قلعے بنائے۔ چترال کے بیرونی معاملات ہاتھ میں لینے کے بعد وہاں بھی ایک مستقل قلعہ بنایا۔ حتمی طورپر انگریز افوا ج نے ملاکنڈ اور چکدرہ میں پڑاؤ ڈالا اور 1895ء میں ملاکنڈ سے چترال تک سڑک کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ اس سڑک کو سوات اور دیر میں سے ہوکے گزر نا تھا۔ اس سال دیراور سوات ایجنسی قائم ہوئی۔ مارچ1897ء میں اس میں چترال کو بھی شامل کرلیا گیا۔ اسے عام طورپر ملاکنڈ ایجنسی کہا جاتا ہے۔
1893ء میں روس کی طرف سے برطانوی ہند کے خلاف کارروائی کے لیے روس کے پاس ممکنہ چار اہم راستوں کا ذکر کرتے ہوئے پوپوسکی نے کہاکہ مرکزی ایشیائی، چترال والا راستہ اگر چہ مشکل پہاڑی سڑک ہے، لیکن یہ مقابلتاً کم تکلیف دہ ہوگا۔ اس سلسلہ میں اُس نے لکھاکہ’’ یہاں سے یہ راستہ یا تو وادیٔ کنڑ میں سے دریائے کابل کے قریب سے گزرتا جلال آباد جاتا ہے۔ یا براستہ دیر لڑم کوتل سے ہوتا ہوا وادئی سوات اور پھر آگے اینگلو انڈین کے پشاور مستقر، یا آخر میں وہ راستہ جو وادئی سوات کے کئی درّوں میں سے ایک کے ذریعہ وا دئی بونیر میں اور وہاں سے اباسین تک یعنی اٹک سے 60 میل اوپر کی طرف پہنچا سکتا ہے۔
اس راستہ سے کسی روسی لشکر کی پیش قدمی سے یقینا اتنی ہی ہلچل پیدا ہوگی جتنی کہ پامیر سطح مرتفع سے گزر کر کشمیر پہنچنے والے لشکر کی وجہ سے پیدا ہوگی اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بے یقینی کی اس کیفیت سے کہ یہ لشکر جلال آباد، پشاوریااباسین کنارے میں سے کسی جگہ نمودار ہوگا، کسی حد تک دفاعی نظام کو متأثر کرے گا۔ گذشتہ جنگوں کی تاریخ کافرستان کی تزویراتی اہمیت اجاگر کرتی ہے۔ سکندر اعظم نے ہندوستان کے خلاف اپنی مہم کا آغاز باخترسے کیا تھا۔ اُس کی فوج کا مرکزی حصہ دریائے کابل کی وادی کے ساتھ چلا جب کہ وہ خود اس فوج کے بائیں بازو کی قیادت کرتا ہوا شمال میں اسے وادئی سوات و بونیر میں لے گیا اور مشکل پہاڑی درہ میں سے ہوکر اباسین پہنچ گیا۔‘‘
انیسویں صدی کے اختتام پر اس علاقہ کی تزویری اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حالاں کہ لارڈ کرزن نے تمام سرحدوں سے اپنی افواج پیچھے کردیں، لیکن چترال میں موجود قلعہ کی فوج کو برقرار رکھا اور اپنی فرنٹئر پالیسی کے ایک اہم حصہ کے طورپر وادیِ سوات میں سے گزرتی چترال سڑک کی تعمیر شروع کی جب کہ دوسری جگہوں پر اس پالیسی کے تحت اس نے افواج واپس بلالیں۔
(کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 51,52 سے انتخاب)