سوات کی قدیم تاریخ کا ریکارڈ بہت کم ہے۔ تاہم 1954ء کے بعد آثارِ قدیمہ کی کھوج کے لیے کی جانے والی کھدائیوں نے اس علاقہ کی قدیم تاریخ کے بارے میں موجود معلومات میں گراں قدر اضافہ کردیا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ آریائی نسل کے لوگ یہاں بس گئے تھے۔ جیسا کہ رِگ وید میں سواستو یعنی موجودہ سوات کے اس تذکرہ سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ ’’اس خوبصورت وادی میں آریاؤں کی رہائش‘‘رہی۔ تاریخی دستاویزات میں سوات کا اوّلین معلوم تذکرہ پہلی دفعہ یونانی مؤرّخ اریان نے کیا ہے۔ سکندرِ اعظم نے مشرق کی مشکل مہم میں انڈیا کی طرف جاتے ہوئے سوات پر حملہ کرکے اسے بہ طور گذرگاہ استعمال کیا۔ اس دوران میں اُسے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 327 قبل مسیح میں سوات جانے کے لیے اُس نے دریائے پنج کوڑہ عبور کیا، تاکہ علاقہ کے بڑے شہر مساگا پر قبضہ کرسکے۔ شہر کے باشندوں نے پہلے توپا مردی سے مقابلہ کرکے حملہ آوروں کو پسپا کردیا لیکن پھروہ اپنے بادشاہ کی موت اور حملہ آوروں کی بہتر جنگی حکمت عملی کے سبب اُن سے صلح کرنے پر مجبور ہوگئے۔ مساگا کی فتح کے بعد سکندر نے اپنے ایک جنرل کو بازیرہ اور تین کو ایک اور شہر اُورا پر قبضہ کے لیے بھیجا اور ان کو ہدایت کی کہ اُس کی آمد تک ان کے گرد فصیل بنائی جائے۔ سکندر بذات خود اُور ا کی طرف بڑھا اور بازیرہ کے لیے کائنوس کو ہدایت بھیجیں۔ دونوں شہروں نے حتیٰ الوسع حملہ آوروں کا مقابلہ کیا لیکن وہ ان کو بچا نہیں سکے۔ سکندر نے مساگا اور اُورا کو اردگرد کے اضلاع پر قبضہ کے لیے مضبوط مرکز کی طرح استعمال کیا۔ اس دوران میں بازیرہ کے دفاع کو بھی مضبوط کیا۔ پھر یہاں سے وہ انڈیا کی مہم پر روانہ ہوا۔ قدیم ماخذ میں ان تینوں شہروں اور اورناس پہاڑی کے محلِ وقوع کے بارے میں کوئی قابل بھروسا تفصیل نہیں ہے اور نہ ہی مؤرخ اُن کے سلسلہ میں کسی بات پر متفق ہوئے ہیں۔ بہر حال ایک عمومی خیال یہ ہے کہ بازیرہ بریکوٹ ہے اور اُورا اوڈی گرام۔

مساگا کی فتح کے بعد سکندر اعظم نے اپنے ایک جنرل کو بازیرہ اور تین کو ایک اور شہر اُورا پر قبضہ کے لیے بھیجا اور ان کو ہدایت کی کہ اُس کی آمد تک ان کے گرد فصیل بنائی جائے۔

یہاں کے باشندوں نے اس غیر ملکی غلبہ کو ہر گز پسند نہیں کیا اور جب سکندر ابھی پنجاب کے دریاؤں کے پاس خیمہ گزیں تھا وہ بے خوف ہوکر آمادۂ بغاوت ہوگئے لیکن اس بات کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہاں کے لوگ سکندر کے رخصت ہونے کے ساتھ ہی یونانیوں کی عمل داری سے آزاد ہوئے یا اس آزادی کے حصول میں انہیں اور زیادہ وقت لگا۔
یونانیوں کے زوال اور 321 قبل مسیح میں چندر گپت موریہ کے برسر اقتدار آتے ہی اس علاقہ میں موریہ خاندان کا عروج شروع ہوا۔ اس بات کا کوئی ریکارڈ بہر حال موجود نہیں ہے کہ سوات کب اس خاندان کے زیر نگیں آیا، اور کب تک ان کی حکومت یہاں قائم رہی۔ تاہم ہیون سانگ، راجہ اشوک کے بنائے ہوئے ایک اسٹوپا کے بارے میں بتا تا ہے جسے لو۔ ہی۔ تا۔ کیا (روہی تاکیا) کا نام دیتا ہے۔ اور جو قصبہ منگلی سے پچاس لی مغرب میں ہے۔ اس سے اس علاقہ میں اشوک کے اقتدار یا کم از کم اثرات کا پتا چلتا ہے۔
اشوک کا عہد سوات میں ایک انقلابی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اشوک نے جو کہ چندر گپت کا نواسا تھا اور موریہ خاندان کا انتہائی طاقتور حکمران تھا، بدھ مت کو قبول کرلیا۔ وہ اس مذہب کا ایک خاموش پیروکار نہیں تھا بلکہ اُ س نے بدھ مت کو ہر طرف پھیلانے کا تہیہ کرکے خود کو اس کا بہت بڑا چمپئن ثابت کیا۔ اس مقصد کے لیے اُس نے جولائحہ عمل اختیار کیا وہ کامیاب رہا۔ اور نہ صرف یہ کہ بدھ مت اُس کی اپنی سلطنت میں ایک غالب مذہب بن گیا بلکہ اُس کی حدودِ سلطنت سے باہر بھی وہ کئی علاقوں میں پھیل گیا۔ اس طرح بدھ مت سوات میں بھی پھیل گیااور یہ سرزمین اُسے اتنی راس آئی کہ یہ اُس کا بہت بڑا مرکز بن گیا۔ یہ مذہب یہاں خوب پھلا پھولا۔ اس کے آثار یہاں ہر جانب ملتے ہیں۔ پہلا مشہور چینی زائر فاہین جو 403 عیسوی میں یہاں آیا، کہتا ہے کہ یہاں بدھ مت کا قانون چلتا ہے۔ تقریباً ایک سو پندرہ سال بعد یہاں آنے والا دوسرا مشہور چینی زائرسنگ یون بتاتا ہے کہ یہاں کے بادشاہ کے بدھ مت کے اصولوں پر سختی سے کاربند ہونے کی وجہ سے ہر طرف اسی مذہب کا چرچا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اثرو رسوخ میں کمی آتی چلی گئی۔ اس لیے جب 630ء میں ایک اور چینی زائر ہیون سانگ یہاں آیا، تو اُس نے بدھ مت کو زوال پذیر پایا۔وہ بتاتا ہے: ’’دریائے سو۔ پو۔ فا۔ سو۔ تو کے دونوں جانب کوئی چودہ سو قدیم خانقا ہیں ہیں لیکن ان میں سے بیشتر اب ویران و اُجاڑ پڑی ہیں۔ کسی زمانے میں ان میں کوئی اٹھارا ہزار کے قریب بدھ بھکشو ہوا کرتے تھے۔ جو کم ہوتے ہوتے صرف چند ہی رہ گئے ہیں۔‘‘

اشوک کا عہد سوات میں ایک انقلابی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

اپنی پرہیزگاری کے باوجود سوات کے بھکشو جادو کی طرف مائل تھے۔ جس میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا۔ اس لیے اس ملک پر ’’وجرایان‘‘ کو غلبہ حاصل ہوگیا۔ جس سے قدیم اعتقادات کے لیے راستہ کھل گیا۔ اور بھوت پریت جیسے خوفناک وجودوں پر اعتقاد کا دور دورہ پھر آغاز ہوگیا۔ وہ خوفناک رسوم جن کے لیے سوات اپنی ابتدائی تاریخ سے مشہور تھا۔
سوات میں ہندیونان، اور ہند توران دور کے جو سکّے ملے ہیں، ان سے پتا چلتا ہے کہ یا تو یہ علاقہ بلاواسطہ ہند یونانی (وہ یونانی حکمران جو موریہ خاندان کے زوال کے بعد مختلف جگہوں پر اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے) یا تورانی حاکموں کے قبضہ میں ہے یا اس کے اُن سے ثقافتی اور اقتصادی روابط رہے ہیں۔ وادئی سوات مینندر کے قبضہ میں رہا جو کہ ہندی یونانی تھا۔ بعد میں یہ علاقہ ایک اور ذیلی بادشاہ اینٹی میکسس دوم کے حوالہ کردیا گیا۔ مینندر کی موت کے بعد اُس کی بیوی اگاتھو کلیا یہاں کی حکمران بن گئی۔ بعد میں اُس نے اپنے بیٹے کو بھی اقتدار میں شریک کرلیا تاکہ اینٹی میکسس دوم کی طاقت کا توڑ کیا جاسکے۔ جس نے غزنی کے قریب اراکوشیا میں اپنی آزادی کا اعلان کردیا تھا۔ ڈائیوڈوٹس کے اور بھی وارث تھے۔ اس لیے اُس نے اپنے ہی خاندان کے ایک فرد زائی لس اوّل کو وادئی سوات میں ذیلی بادشاہ مقرر کردیا۔ اُس نے کچھ مختصر عرصہ کے لیے یہاں پر حکومت کی، لیکن پھر اینٹی میکسس دوم کی وفات کے بعد اُسے اراکوشیا پر دوبارہ قبضہ کے لیے وہاں بھیج دیا گیا۔ زائی لس اوّل کے بعد سوات کے ذیلی بادشاہوں میں سے سب سے مشہور اپالوڈوٹس ہے جسے ساکا سردار مایوس نے بے دخل کردیا۔ ایلی بالا کے ایک اور تورانی قبیلہ سائی نے بھی (جو جیکسارتس اور اُس کے مغرب میں واقع علاقہ کے تور انیوں سے مختلف تھا)سوات اور اُس کے گرد و پیش کے علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ 100 قبل مسیح کے فوری بعد ہندوستان کے پہلے مشہور ساکا بادشاہ مایوس نے وادئی سوات اور گندھارا میں ہند یونانی حکمرانوں کی پیروی کرتے ہوئے اپالوڈوٹس کو حکمرانی سے بے دخل کردیا۔
وسطی ایشیا کے ایک خانہ بدوش کُشان نسل کے سربراہ کڈ پیس اوّل نے دریائے کابل تک کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کرکے اُن پر اپنی حکومت قائم کی۔ اس خاندان کے دورِ حکومت میں اس بات کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے کہ آیا سوات بھی اس کشان سلطنت کا حصہ تھا یایہ کہ یہ اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہا تھا۔ زیادہ قرینِ قیاس یہ ہے کہ یہاں کے کمزور سرداروں نے اس سلطنت کے سایۂ عاطفت میں رہنا قبول کیا ہوگا۔
قریباً 745 عیسوی میں جب کابل کی ترکی شاہی حکومت کی سرحدیں سیستان کی سرحد سے شمالی پنجاب تک پھیلادی گئیں، تو اس عمل میں سوات بھی اس کا ایک حصہ بنادیا گیا۔ یعقوب بن لیث نے 870ء میں اس ترکی شاہی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ اس کے بعد ہندو شاہی خاندان کی حکومت قائم ہوئی اور وقت کے ساتھ ساتھ اُس نے اپنی حدود میں توسیع جاری رکھی۔ اس عہد میں سوات کے بارے میں معلومات خاصی کم ہیں۔ پھر بھی بریکوٹ کے شمال میں ایک پہاڑی پر کندہ تحریر جس کا تعلق جے پال دیو کے عہد حکومت سے ہے، سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ سوات کا علاقہ کسی نہ کسی طرح سے اس ہندو شاہی حکومت کے زیرِ تسلط ضرور تھا۔ جب یہ ہندو شاہی حکومت محمود غزنوی کی زیرِ قیادت مسلمانوں کے ہاتھوں اختتام پذیر ہوئی، تو سوات بھی بچ نہیں سکا۔ راجہ جے پال کو شکست دے کر مسلمانوں نے غالباً 1001۔1002ء کے قریب سوات پر حملہ کیا اور اُس وقت کے حکمران راجہ کے اوڈیگرام قلعہ کا محاصرہ کردیا۔ اس محاصرہ کے بارے میں ایک رومانوی کہانی مشہور ہے کہ جب یہ قلعہ پے درپے حملوں میں بھی فتح نہ ہوسکا، تو راجہ کی بیٹی نے جو محمود غزنوی کے ایک جنرل کی محبت میں گرفتار تھی، اُس خفیہ جگہ کا پتا بتا دیاجہاں سے اس قلعہ کو پانی فراہم کیا جاتا تھا۔ قلعہ کا پانی بند کرکے راجہ کی فوج کو لڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ ایک غلط تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ محمود غزنوی اپنی مہمات کے دوران بذاتِ خود سوات آیا تھا۔ اس ضمن میں کئی ایک غیر مصدقہ حکایات بیان کی جاتی ہیں۔
وادیٔ سوات پر قبضہ کے بعد مختلف افغان قبائل کے لوگ یہاں آکر آباد ہوگئے۔ انہیں سواتی پختون کہا جانے لگا۔ تاہم یہاں اُن کی طویل حکمرانی کے بارے میں معلومات ناکافی ہیں۔ عملاً یہ لوگ افغانستان اور ہندوستان میں قائم ہونے والی مسلم حکومتوں کے اثر و رسوخ سے آزاد رہے۔
سوات کی تاریخ میں سولہویں صدی عیسوی ایک فیصلہ کن تبدیلی لے آئی جب یوسف زئی افغانوں نے اس علاقہ پر قبضہ کرلیا۔ اُس وقت سوات، سواتی پختونوں کے قبضہ میں تھا۔ سلطان اویس ان کا حکمران تھا۔ حالاں کہ نئے آنے والوں نے شادی بیاہ کے بندھنوں کے ذریعے سلطان کے ساتھ رشتہ داریاں قائم کیں، لیکن دراصل وہ وادی پر قبضہ کے عزائم رکھتے تھے۔ اس صدی کے پہلے رُبع میں سواتی پختونوں کی دفاعی کوششوں کو ناکام بناتے ہوئے وہ سوات زیریں پر قابض ہوگئے۔ ان کی پیش قدمی اس کے بعد رک گئی۔ انہوں نے دوبارہ پیش قدمی مغل بادشاہ ہمایوں کے دور میں کی، جو بابر کا بیٹا تھا۔ سلطان اویس اور اُن کے ساتھ دیگر سواتی پختونوں کو سوات بالا کا علاقہ چھوڑ دینا پڑا اور یوسف زئی اُس پر بھی قابض ہوگئے۔ اگرچہ انہوں نے سوات کوہستان کے پہاڑی علاقوں کو نہیں چھیڑالیکن وادی کے قریب واقع دیگر علاقوں جیسے غوربند، کانڑا، چکیسر اور پورن تک انہوں نے اپنے قبضہ کو توسیع دی۔

سوات کی تاریخ میں سولہویں صدی عیسوی ایک فیصلہ کن تبدیلی لے آئی جب یوسف زئی افغانوں نے اس علاقہ پر قبضہ کرلیا۔

جس دوران یوسف زئی سوات میں پاؤں جما رہے تھے، بابر کابل پر قابض ہوگیا تھا۔ چوں کہ ہندستان جانے کا ایک راستہ سوات کے یوسف زئی علاقہ میں سے گزرتا تھا، اس لیے بابر اور ان میں ٹکراؤ لازمی اَمر تھا۔ بابر نے سوات کی راہ لی اور پنج کوڑہ اور جندول و باجوڑ کے مشترکہ پانیوں کے بیچ میں پڑاؤ کیا۔ وہاں اُس نے سوات کی طرف فوجی پیش قدمی روک دی اور سفارتی حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے باجوڑ کے راستہ اشنغر نکل گیا۔ سوات کے یوسف زئی بابر، کامران اور ہمایوں کے عہدِ حکمرانی میں اپنی آزادی برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ اکبر کے عہد تک مغلوں نے سوات سے کوئی تعارض نہیں کیا۔ اکبر 1556ء میں تخت نشین ہوا اور 1585ء میں اُس نے ایک فوج کشمیر کی طرف روانہ کی اور دوسری فوج زین خان کوکہ کی قیادت میں باجوڑ اور سوات فتح کرنے کے لیے بھیجی۔ یہاں مغل فوج کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور سخت مشکلات سے دوچار ہوئی۔ زین خان نے کمک طلب کی اور یہ کمک راجہ بیربل اور حکیم ابوالفتح کی کمان میں بمشکل سوات میں داخل ہوئی۔ چک درہ میں ٹھہر کر انہوں نے ایک قلعہ کی بنیاد ڈالی۔ وہاں سے اس مشترک فوج نے بونیر پر چڑھائی کی لیکن کڑاکڑ کے ایک تنگ راستہ میں مغل فوج تباہی سے دوچار ہوئی۔ راجہ بیربل اپنی آٹھ ہزار فوج کے ہمراہ مارا گیا۔ پھر انہوں نے زین خان کی زیرِ قیادت ایک اور کوشش کی اور باجوڑ اور سوات کے علاقوں میں 1587ء سے 1592ء تک لڑائی جاری رہی، لیکن کوئی حقیقی دیرپا فتح حاصل نہیں کی جاسکی۔
جہاں گیر اور شاہ جہان نے سوات کو نظر انداز کیا۔ 1667ء میں سوات کے یوسف زئی مغلوں سے برسرِ پیکار اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے نیچے میدانی علاقوں میں آئے۔ اس کے جواب میں مغل سپہ سالار سوات میں داخل ہوا اور ایک گاؤں کو تاراج کرکے جلدہی واپس لوٹ گیا۔ سواتی یوسف زئی مغل عہد حکومت میں اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ بلکہ درانیوں اور سکھوں کے ہاتھوں بھی ان کو کچھ خاص گزند نہیں پہنچی۔
انگریزوں کی طرف سے پنجاب کے الحاق اور پشاور پر قبضہ کے بعد سوات کی تاریخ میں ایک نئے دورکا آغاز ہوگیا۔ سوات آزاد رہا اور برطانیہ کے زیرِ قبضہ علاقوں سے بھاگ کر آنے والے مفروروں، پناہ گزینوں اور انگریز استعمار کے مخالفین کے لیے ایک پناہ گاہ بن گیا بلکہ برطانیہ مخالف جذبات کا ایک مرکز بن گیا۔ برطانوی قبضہ میں رہنے والے پختونوں کو سوات کی طرف سے قابض قوت کے خلاف اٹھنے کی مسلسل ترغیب ملتی رہی۔
سوات کی تاریخ میں بہت ہی اہم واقعہ یہاں 1849ء میں ایک باقاعدہ حکومت کا قیام ہے۔ اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے متمنی سواتی سردار اپنی دہلیز پر انگریز قوت دیکھ کر خوف محسوس کرنے لگے۔ انہوں نے آپس میں جرگے منعقد کیے اور سید اکبر شاہ کو سوات کا بادشاہ مقرر کردیا گیا۔ 11 مئی 1857ء تک وہ حکمران رہا۔
ہندوستان میں انگریز تسلط سے آزادی حاصل کرنے کی اس تحریک کایہ سال سوات میں بغیر کسی ہلچل کے گذر گیا۔ سید اکبر شاہ کی وفات سے سوات ایک قسم کی خانہ جنگی میں مبتلا ہوگیا اور وہ اس جنگ آزادی سے بالکل لا تعلق ہوکر اپنے ہی معاملات میں الجھارہا۔ اخوند آف سوات نے اُس وقت جو رویہ اختیار کیا، اُس سے بھی اس استعماری طاقت کو فائدہ پہنچا۔
1857ء کے بعد 1863ء کی امبیلہ مہم تک سواتیوں کا انگریزوں سے کوئی آمنا سامنا نہیں ہوا۔ اس مہم میں انگریز امبیلہ درّہ سے ہوکر بونیر ملکا میں قائم سید احمد شہید بریلوی کے پیروکاروں کی کالونی کو تباہ کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی پیش قدمی کو روک دیا گیا اور بونیر اور سوات کے قبائل یک جا ہوگئے۔ استعماری حکومت نے اس مہم کو 15 نومبر 1863ء تک مکمل کرنے کا فرمان جاری کیا، لیکن اسے’ ’سرحد سے مزید فوجی کمک کے لئے تار پر تار آتے رہے۔‘‘ قبائل کی ایک متحدہ قوت نے دوماہ تک برطانوی افواج کو روکے رکھا۔ استعماری طاقت نے فوجی لحاظ سے ناکامی کے بعد سفارتی کامیابی حاصل کی اور ایک عارضی جنگ بندی کے ذریعہ قبائل کو منتشر کردیاگیا۔
امبیلہ مہم کے بعد سواتی پُرامن رہے اور 12 جنوری 1877ء تک اَخوند آف سوات کی وفات تک انہوں نے برطانوی حکومت سے الجھنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور اُن سے بنائے رکھنے کی اخوند کی رائے کا احترام کیا جاتا رہا۔ حالاں کہ اس دوران میں اس کے برخلاف کرنے کے لیے شدید دباؤ رہا۔ 1895ء میں کچھ اندرونی واقعات اُس وقت سواتیوں اور برطانوی فوج کے درمیان شدید جھڑپوں کا باعث بنے، جب سواتیوں نے اپنے علاقہ سے چترال جانے والی انگریز فوج کا راستہ روکا۔ جو جندول کے عمرا خان کے خلاف کارروائی کے لیے جا رہی تھی۔ عمرا خان نے چترال، گلگت، پشاور اور اسمار باؤنڈری مشن کے برطانوی حکام کی تنبیہات اور مشوروں کو یک سر نظر انداز کیا۔ اس پرپشاور میں اعلیٰ انگریز حکام میجر جنرل سر رابرٹ لو کی قیادت میں آرمی کے فرسٹ ڈویژن کو چترال ریلیف فورس کے نام سے حرکت میں لائے، جو پندرہ ہزار کی نفری پر مشتمل تھی۔

امبیلہ مہم کے بعد سواتی پُرامن رہے اور 12 جنوری 1877ء تک اَخوند آف سوات کی وفات تک انہوں نے برطانوی حکومت سے الجھنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

ایک اعلان کے ذریعہ قبائل کو اُن کے علاقہ سے گذرنے والی فوج کو متحرک کرنے کے اسباب بتائے گئے اور ان کو یقین دلایا گیا کہ اگر وہ غیر جانب دار رہے، تو انہیں اور ان کی املاک کو کوئی گزند نہیں پہنچایا جائے گا۔اور یہ کہ انگریز حکومت ان کے علاقوں کو اپنی سلطنت میں ضم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ اس اعلان کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سواتیوں نے اُن تینوں دروں کو جن کے ذریعہ چترال جانے کے لیے انگریز فوج سوات میں داخل ہوسکتی تھی، بند کردیا۔
چترال ریلیف فورس یکم اپریل 1895ء کو نوشہرہ سے روانہ ہوئی۔جنگی حکمت عملی کے تحت دشمن کو تذبذب میں مبتلا رکھنے اور انہیں تقسیم کرنے کے لیے مورہ اورشاہ کوٹ کے دروں پر حملوں کا ڈراوا دینے کی چال چلی، لیکن اصل حملہ ملاکنڈ کے درہ سے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ وہی حکمت عملی تھی جو یوسف زئی قبائل نے چار سو سال قبل سوات کا دفاع کرنے والوں کے خلاف اختیار کی تھی۔ تین اپریل کو حملہ کا آغاز ہوا۔ قبائلی جن کی اکثریت غیر مسلح تھی، پوری طرح مسلح اور منظم انگریز فوج سے انتہائی بے جگری سے لڑے۔ انہوں نے اپنی مزاحمت جاری رکھی اور چار دن تک اُس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی پیش قدمی کو روکے رکھا۔ بالآخر برطانوی فوج اپنی کوشش میں کامیاب ہوئی اور اکبر کے سالار زین خان کی فوج کے بعد پہلی بار ایک جم غفیر وادئی سوات کی سرسبز و شاداب پٹّی میں جنوب کی طرف سے داخل ہوا۔ ملاکنڈ اور چک درہ میں انہوں نے قلعے بنائے۔ دیر اور سوات کی ایک پولی ٹیکل ایجنسی قائم کی گئی جس کا صدر مقام ملاکنڈ قرار پایا اور اسے تذویری اہمیت کی وجہ سے بلاواسطہ برطانوی ہندوستانی حکومت کے کنٹرول میں دے دیا گیا۔
عمراخان آف جندول کے فرار کے بعد انگریز حکومت نے خان آف دیر شریف خان کو اُس کی خدمات کے عوض بحال کیا۔ چوں کہ اُس نے اس جنگ میں ان کی حمایت کی تھی اور مدد فراہم کی تھی، اس لیے عمرا خان کے زیر قبضہ سارے علاقے بھی اُس کے حوالے کردیے گئے اور جولائی 1897ء میں اُس کے منصب میں اضافہ کرکے اُسے نواب آف دیر تسلیم کرلیا گیا۔ استعماری حکومت کے سرکاری ریکارڈ میں تحریر کیا گیا۔ ’’نئے انتظامات اطمینان بخش دکھائی دیتے ہیں۔ تجارتی سرگرمیاں بڑھی ہیں اور حکومت کے خلاف لوگوں کے دل میں پیدا ہونے والی دشمنی بھی جلد ختم ہوگئی۔‘‘
تاہم لوگوں کے دل جیتنا آسان نہ تھا، جو اس استعماری طاقت کی موجودگی کو ایک مشترکہ خطرہ سمجھتے تھے۔ مخالفانہ جذبات بڑھتے رہے اور بمشکل دو سال بعد انگریزوں کے خلاف سب سے خوفناک بغاوت بپا ہوگئی۔ اگر سارے صوبہ سرحد کی سطح پر رکھ کر بھی اس کو دیکھا جائے، تو اس کے خوفناک ہونے کے درجہ کو گھٹا یا نہیں جاسکے گا۔ صرف سوات ہی نہیں بلکہ برطانوی سلطنت کے شمال مغربی سرحد کے سب قبائل میں وسیع پیمانے پر بے چینی پھیل گئی۔ اس دوران میں جولائی 1897ء میں سوات بالا میں سرتور فقیر نمودار ہوا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ انگریزوں کو صرف ملاکنڈ نہیں بلکہ پشاور سے نکال کر دم لے گا۔
شروع میں تو انگریزوں نے اس نئی تحریک کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی لیکن جولائی کے اختتام تک حالات کی نزاکت کو مزید نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ علاقہ کے قریب تعینات افواج کو چوکس کردیا گیا تاکہ کم سے کم وقت میں ان کو حرکت میں لایا جاسکے اور 26جولائی 1897ء کو مردان سے گائیڈز بلالیے گئے۔
اس دن سرتور فقیر نے لنڈاکے سے ملاکنڈ اور چک درہ کی طرف پیش قدمی کا آغاز کیا۔ سوات بالا، بونیر، اتمان خیل علاقہ بلکہ دور دراز سے لوگ ہزاروں کی تعداد میں اُس کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔ جب کہ دوسری جانب گائیڈز 27 جولائی کو مردان سے ملاکنڈ پہنچے۔ 28 جولائی کو انڈیا میں مزید فوج کو حرکت میں لایا گیا۔ دونوں مقامات پر گھمسان کارَن پڑا۔ یکم اگست کو ملاکنڈ فوجی کُمک پہنچی اور اُس کے دوسرے دن چک درہ۔ یوں دونوں کو بچالیا گیا۔
بغاوت کی شدت کا احساس کرتے ہوئے گورنر جنرل نے 30 جولائی 1897ء کو ملاکنڈ فیلڈ فورس کی روانگی کی اجازت دی، تاکہ وہ ملاکنڈ اور آس پاس کے مورچوں پر قبضہ کو مستحکم کرے اور بغاوت میں ملوث قبائل کو سزا دے۔ اگست 1897ء کی ابتدا میں فوری طورپر ایک ریزرو بریگیڈ کی تشکیل کا بھی فیصلہ کرلیا گیا، تاکہ فیلڈ فورس کی مدد جاری رہے۔ اس طرح وادئی سوات میں پہلی اور آخری تعزیری مہم کا آغاز کیا گیا۔ انگریز 19 اگست 1897ء کو مینگورہ پہنچے۔ کئی مقامات پر اُنہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑااور بہت جانی نقصان اُٹھایا۔ ایچ ایل ایس میکلین اور لیفٹیننٹ آر ٹی گریوز بھی مارے گئے افسروں میں شامل تھے۔ لنڈاکی کے قریب کوٹہ اور نویکلے کے مقام پر ہونے والی لڑائی کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ برطانوی حکومت نے اس لڑائی میں شریک لیفٹیننٹ کرنل ایڈمز اور وسکاؤنٹ فنکاسل کو سب سے بڑا فوجی اعزاز ’’وکٹوریہ کراس‘‘ دیا جب کہ پانچ دیگر کو’ ’آرڈر آف میرٹ‘ ‘سے نوازا گیا۔
1897ء کی سواتیوں کی بغاوت نے نہ صرف یہ کہ عظیم برطانوی طاقت کو پورا ایک ہفتہ ایسی جنگ پر مجبور کیا جس میں انتہائی غیر متوقع حالات کا انہیں سامنا کرنا پڑا بلکہ پورے قبائلی علاقوں میں سر اٹھانے والی دیگر بغاوتوں نے اس سال کو جوکہ ملکہ وکٹوریہ کے عہدِ حکومت کی گولڈن جوبلی تقریبات کا سال تھا، پوری تاریخِ ہند میں برطانوی حکومت کے لیے مشکل ترین سالوں میں سے ایک بنا دیا۔
ملاکنڈ کی اس جنگ کے بعد کے سالوں میں انگریزوں کے خلاف سوات میں مزید کوئی مسلح جدوجہد نہیں ہوئی۔ سر تور فقیر نے کئی بار کوشش کی لیکن سوات کے اندر کے گروہی تنازعات، نواب آف دیر کے خلاف مسلسل تناؤ کی کیفیت اور کچھ با اثر اقتدار کے طالب لوگوں کے انگریزوں سے اچھے تعلقات کی وجہ سے اُسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ 1915ء میں ریاستِ سوات کی تشکیل تک حالات جوں کے توں رہے۔ اس کے بعد ایک بار پھر انگریز استعمار کے خلاف مزاحمت کی ایک اور ناکام کوشش ہوئی۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ تینتیس تا چالیس سے انتخاب)