کلدیپ نیئر غالباً وہ واحد شخصیت تھے، جنہیں پاکستانیوں کی بڑی تعداد ایک معتبر اور درد مند بھارتی شہری تصورکرتی تھی۔ وہ اکثر پاکستان آتے اور شوق سے آتے۔ سیالکوٹ جو ان کی جنم بھومی تھا اور لاہور جہاں انہوں نے تعلیم پائی، سے ان کا رشتہ کبھی نہ ٹوٹا۔ تقسیمِ ہند نے انہیں بھی بری طرح متاثر کیا۔ سارا خاندان اُجڑگیا۔ نقلِ مکانی کرنا پڑی۔ دہلی میں ایک نئی زندگی کا آغاز کوئی سہل کام نہ تھا، لیکن انہوں نے ذاتی دکھوں کو فراموش کرکے خطے میں امن اور محبت کی فضا پیدا کرنے کے لیے زندگی بھر جدوجہد کی۔ حکومت اور انتہا پسندوں کی طرف سے انہیں ’’پاکستان کا ایجنٹ‘‘ کہا گیا، لیکن وہ استقامت سے اپنے مشن پر ڈٹے رہے۔
اسلام آباد میں ایک مرتبہ ان کے ساتھ طویل نشست ہوئی جہاں ان کی زندگی اور نظریات کے حوالے سے کافی دیر تک گفتگو رہی۔ اگرچہ کلدیپ نیئر آج ہمارے درمیان نہیں، لیکن ان کی یادیں اور خیالات ابھی تک ذہن میں گونج رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ہونے والی ایک گفتگو کا کچھ حصہ قارئین کے ساتھ شیئر کررہا ہوں، کیوں کہ یہ بہت غیر روایتی باتیں ہیں جو بہت کم پڑھنے یا سننے کو ملتی ہیں۔
وہ اسلام آباد کلب میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ طویل قامت کلدیپ نیئر اکثر سادے کپڑوں میں ملبوس اور ہر طرح کے کروفر سے بالاتر رہتے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کی پوری صحافتی اور سیاسی زندگی پر پاک بھارت دوستانہ تعلقات کے قیام کی خواہش کا غلبہ کیوں رہا ہے؟ وہ کچھ دیر تک خاموش ہوگئے جیسے کہ ماضی کی یادوں میں کھو گئے ہوں۔ کہنے لگے کہ یہاں میں پیدا ہوا، یہاں ہی کھیل کود کر جوان ہوا۔ لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ اس شہر سے مجھے جنون کی حد تک لگاؤ ہے۔ اپنے آپ کو لاہور اور سیالکوٹ سے جدا نہیں کر پایا۔ گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ ان شہروں اور یہاں کے دوستوں کاذکر آج بھی چلتا رہتا ہے۔ لاہوریوں سے میں نے ٹوٹ کر محبت کرنا سیکھی ہے۔ تقسیم ہوئی، تو دہلی چلا گیا مگر پاکستانی دوستوں سے رابطہ برقرار رہا۔ میرا خیال ہے کہ دونوں ملک آزاد ہوگئے۔ ہمارے ملک جدا جدا ہیں۔ اب لڑنے جھگڑنے کی بجائے عوام کی محرومیوں کا اِزالہ کیاجانا چاہیے۔ اسی پس منظر میں پاک بھارت اچھے تعلقات میری زندگی کا ایک مشن بن گئے۔
میں نے ایک اور سوال داغ دیا۔ عرض کیا کہ اکثر بھارتی دانشور آپ کی طرح کے افراد کو سادہ لوح تصور کرتے ہیں، جن کو سٹرٹیجک ایشوز کا ادراک نہیں۔ کلدیپ صاحب مسکرائے اور کہنے لگے، بھائی! یہی نہیں، مجھے پاکستانی ایجنٹ کہا گیا۔ گھر کے سامنے مظاہرے ہوئے۔ اخبارات نے لکھا کہ کلدیپ نیئر پر غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے بھارت میں کئی بم پھٹے، راجیہ سبھا میں وزیرِ داخلہ ایل کے ایڈوانی نے پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ بم دھماکوں میں ملوث ہے۔ میں نے پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہو کر کہا کہ دہلی میں ٹائر بھی پھٹتا ہے، تو آئی ایس آئی پر الزام لگ جاتا ہے۔ پاکستان میں معمولی سا بھی کوئی حادثہ ہو جائے، تو الزام بھارت پر عائد کردیا جاتا ہے۔ ہمیں اس فضا سے نکلنا ہوگا۔ ہاؤس کے آدھے ارکان کھڑے ہو گئے اور ’’غدار غدار‘‘ کے نعرے لگانے لگے۔ اکثر نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مجھے گرفتار کرے، کیوں کہ میں پاکستان کا ایجنٹ ہوں۔
ان کی آواز میں دکھ اور چہرے پر کرب کا منظر دیکھ کر میں نے موضوع بدلنے کی خاطر پوچھا، لارڈماؤنٹ بیٹن نے تقسیم کا اعلان کیا، تو آپ سیالکوٹ میں تھے۔ خطے کی تقسیم اب نوشتۂ دیوار تھی۔ آپ نے اس لمحے کیا سوچا؟ دھیمی سی آواز میں کہا،میاں! کیوں پرانے زخم کرید تے ہو۔ کہنے لگے، تقسیم ہند کی اطلاع ایک بم شیل سے کم نہ تھی۔ اچانک عدم تحفظ اور بے یقینی کا احساس پیدا ہوگیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدوں کا تعین ہونا باقی تھا۔ بالخصوص پنجاب، بنگال اور آسام میں آبادی کا تناسب لگ بھگ یکساں تھا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں میں بہت اضطراب تھا کہ سرحد کہاں بنے گی؟ اگرچہ تقسیم کا مرحلہ سرپر آن پہنچا تھا، مگر کوئی یقین کرنے کو تیار نہ تھا کہ اسے اپنے گھر بار، دوست احباب اور شہر ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے جانا ہے۔

کلدیپ نیئر کے بقول: "ماؤنٹ بیٹن پر لاکھوں بے گناہ اور معصوم شہریوں کے قتل کا مقدمہ بننا چاہیے۔ بڑی سنجیدگی کے ساتھ میں نے یہ تجویز دی تھی کہ بھارت، پاکستان اور برطانیہ کے ماہرین پر مشتمل ایک ٹربیونل قائم کیاجائے جو ماؤنٹ بیٹن کے کردار کا ازسرنو جائزہ لے۔ مجھے معلوم ہے اس سے زمینی حقائق نہیں بدلیں گے، مگر 10 لاکھ لوگوں کے قتل کے ذمہ دار کا تعین تو ہوجائے گا۔”

میں نے سوچا کہ تاریخ پر نظر رکھنے والا دانشور نہیں بلکہ آج ایک ایسا شخص ہاتھ آگیا ہے جس نے خود تاریخ بنتے دیکھی، لہٰذا کچھ اور سوال بھی پوچھ لیتے ہیں۔ عرض کیا، پاکستانی ماؤنٹ بیٹن کے کردار کو پسند نہیں کرتے، وہ اسے بھارت نواز بلکہ پنڈت جواہر لال نہرو کا ’’لنگوٹیا‘‘ کہتے ہیں۔ بھارتی انہیں کیسے یاد کرتے ہیں؟ کلدیپ نیئرنے ایسا جواب دیا کہ میرے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ کہنے لگے، ماؤنٹ بیٹن پر لاکھوں بے گناہ اور معصوم شہریوں کے قتل کا مقدمہ بننا چاہیے۔ بڑی سنجیدگی کے ساتھ میں نے یہ تجویز دی تھی کہ بھارت، پاکستان اور برطانیہ کے ماہرین پر مشتمل ایک ٹربیونل قائم کیاجائے جو ماؤنٹ بیٹن کے کردار کا ازسرنو جائزہ لے۔ مجھے معلوم ہے اس سے زمینی حقائق نہیں بدلیں گے، مگر 10 لاکھ لوگوں کے قتل کے ذمہ دار کا تعین تو ہوجائے گا۔
کلدیپ نیئر کی باتیں میرے لیے ایک شاک سے کم نہ تھیں۔ استفسار کیا کہ ماؤنٹ بیٹن کی بھارت کے لیے بہت خدمات ہیں۔انہیں بھارت کاپہلا گورنر جنرل مقرر کیا گیا؟ کلدیپ نیئر جواباً کہنے لگے کہ اگر ماؤنٹ بیٹن تقسیم کی اصل تاریخ3 جون 1948ء کو تبدیل کر کے 10 ماہ پہلے نہ کرتے، تو ہزاروں لوگ موت کے گھاٹ اترنے سے بچ جاتے۔ اکتوبر 1971ء میں لندن میں ماؤنٹ بیٹن سے میں نے پوچھا کہ آخر انہیں تقسیم کی اس قدر جلدی کیوں تھی؟ ان کا کہناتھا کہ میرے لیے پورے بھارت کو متحد رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ معاملات ہاتھ سے نکل رہے تھے۔ تقسیم سے محض ایک سال پہلے کلکتہ میں قتلِ عام ہوا۔ ہر طرف فرقہ وارانہ تناؤ پھیل رہا تھا۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ جتنی جلد برطانیہ ہندوستان سے نکل جائے، اس کے حق میں اتنا ہی اچھاہے۔ کئی ایک دانشوروں نے مجھے بتایا کہ ماؤنٹ بیٹن برطانوی نیوی میں کسی بڑے عہدے کے حصول کی توقع کرتے تھے۔ چناں چہ انہوں نے جلدی میں تقسیمِ ہند کے امور نمٹانے کی کوشش کی۔
بات تاریخ کی ہو رہی تھی، لہٰذا کلدیپ نیئر کے ہر جواب کے ساتھ ایک اور سوال میرے ذہن میں آتا۔ وہ بڑے تحمل سے گفتگو کررہے تھے۔ عرض کیا کہ کہا جاتا ہے برطانوی وائسرائے اور ان کے سٹاف نے فسادات روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ تناؤ کو کم سے کم سطح پر لانے کی خاطر انہوں نے تقسیم بھی قبل از وقت کرائی۔ کلدیپ نیئر جواباً بولے، ماؤنٹ بیٹن نے مولانا ابوالکلام آزاد سے کہا، ہم فسادات کی اجازت نہیں دیں گے، لیکن فسادات شروع ہوئے، تو حکومت کا وجود ہی نظر نہ آیا۔ ماؤنٹ بیٹن کو فسادات اور عام لوگوں کے قتلِ عام کو روکنے سے زیادہ دلچسپی دونوں ملکوں کا مشترکہ گورنر جنرل بننے کی تھی۔ پنجاب باؤنڈری فورس جو فسادات روکنے کی خاطر منظم کی گئی تھی، مکمل طور پر لاتعلق رہی۔ برطانوی افسروں میں اس وقت واپس وطن جانے اوروہاں ملازمتیں حاصل کرنے کا مقابلہ تھا۔ برطانوی افسروں کو اپنے کمانڈر نے ہدایت کی کہ وہ محض یورپی باشندوں اور مفادات کا تحفظ کریں اور مقامی مسائل میں نہ الجھیں۔
اب ہم نے گفتگو کا رُخ حالاتِ حاضرہ کی طرف موڑتے ہوئے پوچھا کہ اکثر امن کے علمبرداروں پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ لوگوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ آخر اس زبان بندی کا سبب کیا ہے؟ کلدیپ نیئر نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور پوچھا کہ آپ کو نہیں معلوم کہ میں خود سری نگر اور دیگر علاقوں میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کے وفود لے کر گیا۔ ہم نے ریاستی جبر کو ہدفِ تنقید بنایا۔ پاکستان نے ان رپورٹوں کو دنیا میں بھارت کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا۔ آہستہ آہستہ حکومت نے انسانی حقوق کے علمبرداروں کو باور کرایا کہ وہ قومی مفاد میں خاموش ہو جائیں اور لوگ خاموش ہوتے گئے۔ جموں و کشمیر کے ایشو پر بھارت میں قومی اتفاقِ رائے پیدا ہو چکا ہے کہ کوئی مفاہمت نہیں کرنی۔ پنڈتوں کوکشمیر سے نکالا گیا، تو کشمیریوں کی تحریک نے فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لیا۔ بعد ازاں جہادیوں نے بھی تحریک میں شمولیت اختیار کر لی، جس سے اس تحریک کا رُخ مکمل طور پر بنیاد پرستی اور دہشت گردی کی جانب مڑ گیا۔ اس دوران بھارت کے اندر بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے، جنہوں نے ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی کوحکومتی نقطۂ نظر کے قریب کر دیا۔ یوں بھارت میں جموں و کشمیر پر آزادانہ بحث و مباحثہ نہ ہو سکا، مگر اس کے باوجود اخبارات نے اکثر تشدد کے واقعات پر تنقید کی اور حکومت کا محاسبہ بھی کیا۔
کلدیپ نیئر اگرچہ گفتگو میں گہری دلچسپی لے رہے تھے لیکن انہیں ملنے والوں کا تانتا بندھا ہواتھا۔ لہٰذا میں نے سوچا کہ اب دوسرے لوگوں کے لیے جگہ خالی کرنی چاہیے، مگر پھر بھی کچھ سوال ایسے تھے جو پوچھے بنا چارہ نہ تھا۔ کلدیپ صاحب کو متوجہ کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ اکثر پاکستان آتے ہیں، پاکستانیوں کے بھارت کے بارے میں روایتی رویے میں کوئی تبدیلی آپ نے محسوس کی؟ ان کے چہرے پر خوشگوارسی مسکراہٹ پھیل گئی۔ چائے کا کپ اٹھایا اور بولے ہمیں (بھارتیوں کو) پاکستانیوں کے ساتھ رہنے کا ڈھنگ سیکھنا ہوگا۔ پاکستانیوں کی سوچ میں بہت مثبت تبدیلی آئی ہے۔ اکثر پاکستانی اب معاشی مسائل کے حل کو ترجیح دیتے اور بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے قیام کے آرزو مند ہیں۔
کلدیپ نیئر پہلی بار ایوب خان سے تاشقند میں ملے اور ان کے ساتھ 1965ء کی جنگ کے حوالے سے گفتگو کی۔ ان سے پوچھا جنگ کس نے شروع کی؟ انہوں نے تبصرہ کرنے سے معذرت کرلی۔ انہوں نے کہا تم آج شام بھٹو سے ملنے جا رہے ہو، اس سے پوچھو یہ اس کی جنگ تھی (It was his war) شام کو بھٹو سے ملا اور انہیں بتایا، ایوب خان نے 1965ء کی جنگ پر یہ تبصرہ کیا، تو انہوں نے اس سے انکار نہیں کیا۔ بھٹو نے کہا میرا خیال تھا کہ پاکستان بھارت کو فوجی میدان میں شکست دے سکتا ہے۔ کیوں کہ ابھی بھارت کی جنگی پوزیشن زیادہ مستحکم نہ تھی۔ بھٹو نے کہا کہ ابھی ہمیں بھارت پر فوجی برتری حاصل ہے۔ کیوں کہ ہمارے پاس مغرب سے خریدا ہوا جدید اسلحہ ہے۔ یہ وقت تھا کہ ہم بھارت سے بزور قوت تنازعہ کشمیر حل کرا لیتے۔ کیوں کہ ہم مذاکرات کی میز پر اسے طے نہیں کرسکے ہیں۔
کلدیپ نیئر سے جناب مشاہد حسین سیّد کے گھر اور یاسین ملک کے ہمراہ بھی کچھ ملاقاتیں ہوئیں۔ دہلی میں ایک کانفرنس میں کافی طویل گپ شپ ہوئی۔ شام کو کھانے کی میز پر ہمارے ساتھ پاکستانی ہائی کمشنر جناب شاہد ملک بھی تشریف فرما تھے۔ کلدیپ نیئر باقی لوگوں کی طرح کھانا لینے اٹھے، تو شاہد ملک نے ان کی پلیٹ تھام لی۔ خود ان کے لیے کھانا ڈالا اور میز پر انہیں پیش کیا۔ اس سے پاکستانیوں کے دل میں ان کے احترام کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔

……………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔