لفظ کشمیری کا اطلاق شائد کشمیر کی کسی بھی نسل سے تعلق رکھنے والے فرد پر ہوسکتا ہے، لیکن کشمیر میں اس کا استعمال عموماً "وادئی سرینگر” کے لوگوں کے حوالہ سے ہوتا ہے۔ تاہم ہماری تعداد میں کچھ چِھبالی یا وہ نسل بھی شامل ہے جو کشمیر کی پہاڑیوں و گجرات، راولپنڈی اور ہزارہ کی سرحدوں پر آباد ہے، لیکن ان میں ڈوگرے یا کشتواڑ اور بدرواہ کے پہاڑی شامل نہیں۔ کیوں کہ یہ ہندو ہیں جب کہ ہمارے کشمیری مسلمان۔
بہرصورت یہ اصطلاح جغرافیائی نوعیت کی ہے اور شائد ان میں بہت سے وہ افراد بھی شامل ہوں گے جنہیں ہم پنجاب کی علیحدہ ذاتوں سے متعلق کہتے ہیں۔ کاشت کار طبقہ، جو کشمیری خاص کا معتد بہ حصہ ہیں، غالباً ارائیں نسل کے ہیں، لیکن شاید خاص خون کے اندرونی آمیزش والے اور واضح خصوصیات کے مالک۔ مسٹر ڈریو (Drew) نے انہیں قوی الجثہ، طاقت ور اور خوب صورت نقوش والی ذات قرار دیا اور انہیں پورے برصغیر کی عمدہ ترین نسل کا درجہ دیتے ہیں۔ بہرحال حالیہ ادوار میں ان کی تاریخ نہایت افسوس ناک، مصیبتوں اور ظلم و تشدد والی تاریخوں میں سے ایک ہے۔ "وہ بزدل، دروغ گو اور جھگڑالو بھی ہیں، تاہم اس کے ساتھ ساتھ انتہائی زیرک، شاداں و فرحان اور پُرمذاق بھی ہیں۔”
مسٹر ڈریو کی تصنیف "جموں اینڈ کشمیر” میں ان کی اچھی تفصیل ملتی ہے ۔
پنجاب میں اصطلاح "کشمیری” سے مراد مسلمان کشمیری ہے۔ کشمیر کے ہندو کو شاذ ہی کبھی کشمیری کہاجاتاہے۔ پنجاب میں اہم ترین کشمیری عنصر لدھیانہ اور امرتسر شہروں میں ملتا ہے، جہاں اب بھی جولاہوں کی بہت بڑی آبادیاں ہیں۔ وہ قالین اور عمدہ پارچے بُنتے ہیں۔ ان کے علاوہ صوبہ بھر میں بہت سے کشمیری بکھرے ہوئے ملتے ہیں۔ بہت سو کو گذشتہ قحط (1878ء) کے ہاتھوں مجبور ہو کر دامنِ کوہ کے اضلاع میں آنا پڑا۔ گجرات، جہلم اور اٹک کے کشمیریوں میں سے زیادہ تر چبھالی ہیں (حال ہی میں شائع ہونے والی "تاریخِ اقوامِ کشمیر” میں ان کے متعلق مفصل معلومات دی گئی ہیں)۔
سر والٹر لارنس کی "وادئی کشمیر” باب XII میں کشمیری قبائل کا مفصل حال دیا گیا ہے۔ پنجاب میں اپنا اندراج کروانے والے مرکزی کشمیر قبائل درج ذیل ہیں:
"بٹ، بٹی، ڈار، لُون، مان، میر، شیخ، وائیں اور وردے۔”
("ذاتوں کا انسائیکلو پیڈیا” (از "ای ڈی میکلیگن/ ایچ اے روز” مترجم یاسر جواد) شائع شدہ "بُک ہوم لاہور” کے صفحہ نمبر 09-308 سے ماخوذ)