تیلی، تیل نکالنے والے کو کہتے ہیں۔ میانوالی، مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان میں اسے "چاکی” کہتے ہیں۔ اس کے لیے عزت کے القابات "روغن گر” یا "روغن کَش” ہیں۔ یہ صابن اور نمدے (نمدہ، وہ کپڑا جو اُون کو جما کر بناتے ہیں۔ نمدہ وہ اُونی کپڑا بھی ہے جو گھوڑے کی پیٹھ پر زین کے نیچے ڈالتے ہیں، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام) بناتے ہیں۔ غریب ترین گھروں میں بھی سبزیوں کے تیل کی بجائے مٹی کے تیل کے استعمال نے تیلیوں کو اصل پیشہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے اور وہ دیگر پیشے اپنانے لگے ہیں۔ مثلاً گورداسپور میں بہت سے تیلی اب بطورِ مزارعہ کام کرتے ہیں۔ ان کے تین پیشہ ورانہ گروپ ہیں:
1:۔ خراسیہ۔
2:۔ پینجا یا دُھنیا۔
3:۔ تیلی خاص، جو سیالکوٹ میں جنگلا کہلاتے ہیں (کچھ دُھنیے گوشت بھی بیچتے ہیں۔)
مسلمان تیلی "بابا حسّو” کی نسل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جس نے کولہو (تیل یا رَس بیلنے کا آلہ، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام) کو ایجاد کیا اور جس کے مقبرے لاہور میں چوک جھنڈا اور سیالکوٹ میں ہیں۔
روایت بتاتی ہے کہ حضرت ایوبؑ کے بھتیجے اور باعُور کے بیٹے لقمان نے تمام فنون کے مؤجد حضرت داودؑ کی شاگردی اختیار کی۔ لقمان نے سرسوں کے بیجوں سے تیل نکالنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ آخرِکار ایک بوڑھی عورت نے اسے طریقہ سمجھایا۔ (’’ذاتوں کا انسائیکلو پیڈیا‘‘ (از ’’ای ڈی میکلیگن/ ایچ اے روز‘‘ مترجم یاسر جواد) شائع شدہ ’’بُک ہوم لاہور‘‘ کے صفحہ نمبر 30-129 سے ماخوذ)