’’(ملتانی زبان میں چھنگڑ، پشتو میں چنگڑے) چنگڑ غالباً قدیمی نسل کے پست ذات لوگ ہیں جن کی سب سے زیادہ تعداد گجرات، امرتسر، لاہور، فیروز پور اور فرید کوٹ اور بالخصوص سیالکوٹ میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے اجداد جموں پہاڑوں سے آئے تھے۔ وہ کام کی تلاش میں دربدر پھرتے رہنے والے خانہ بدوش ہیں، لیکن بڑے شہروں کے نواح میں بستیاں بنا کر رہتے ہیں۔ وہ تقریباً ہر قسم کا کام کرلیں گے لیکن زیادہ تر زرعی مزدوری، بالخصوص کٹائی کاکام کرتے ہیں، جب کہ ان کی عورتیں اناج کے بیوپاریوں کے لیے غلہ چھاننے اور صاف کرنے کا کام کرتی ہیں۔ وہ سب مسلمان ہیں اور نکاح پڑھ کر شادی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں شمس تبریز ملتانی نے مسلمان کیا تھا۔ اس بزرگ نے ان کے جدِامجد، ایک ہندو راجپوت کو ہدایت کی تھی کہ وہ ایمانداری کے ساتھ محنت کرے۔ کیوں کہ ایسا کرنا ’’چنگا‘‘ (اچھا) ہے۔ ان کے قبیلچے پُھولن، چوہان، منہاس اور سروہے بتائے جاتے ہیں۔ ان کی عورتیں اب بھی شلوار کی بجائے پیٹی کوٹ پہنتی ہیں، لیکن یہ سرخ کی بجائے نیلے ہوتے ہیں۔ چنگڑ نہایت محنتی اور زیادہ جرائم پیشہ نہیں۔ ان کا ایک اپنا مخصوص لہجہ ہے۔ ڈاکٹر لیٹنر کے مطابق وہ خود کو چنگڑ نہیں بلکہ چُوبنا کہتے ہیں، اور لفظ چنگڑ غالباً ’’چھاننا‘‘ سے ماخوذ ہے۔ یہ کمزور رائے بھی دی گئی کہ چنگڑ اصل میں زنگاری کی ہی ایک صورت ہے۔‘‘
(’’ذاتوں کا انسائیکلو پیڈیا‘‘ (از ’’ای ڈی میکلیگن/ ایچ اے روز‘‘ مترجم یاسر جواد) شائع شدہ ’’بُک ہوم لاہور‘‘ کے صفحہ نمبر 187-88 سے ماخوذ)