نوٹ:۔ محترم فضل رازق شہاب صاحب نے اپنے کالم ’’ملک سسٹم‘‘،میں راقم سے اس بابت لکھنے کو کہا تھا۔ لہٰذا اس مضمون کے محرک شہابؔ صاحب ہی ہیں۔ (راقم)
دنیا میں افراد تاریخ کے مختلف ادوار میں، مختلف معاشروں میں، مختلف ساخت اور ہیئت کے تحت زندگی گزارتے چلے آرہے ہیں۔ کہیں قبائلی نظام، تو کہیں مربوط و منظم طرز حکم رانی۔ ہر نظام اپنی خصوصیات اور خوبیوں و خامیوں کا حامل ہوتا ہے۔ یہی سیاسی و سماجی حیثیت و ساخت کسی معاشرے و افراد کے تہذیب و تمدن کے حوالے سے ترقی و پیش رفت یا پس ماندگی کے مرحلے اور حیثیت کا تعین کرنے میں ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں۔ آج ایکسویں صدی کے ترقی یافتہ گردانے جانے والے دور میں بھی دنیا میں مختلف نظام ہائے حکومت و زندگی پائے جاتے ہیں۔
سوات جو کہ دنیا کے اکثر ممالک میں جانا پہچانا نام رہا ہے، اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف مراحل و مدارج سے ہو گزرا ہے۔ کبھی قبائلی نظام، تو کبھی مربوط و منظم حکومتیں اور تہذیبی و تمدنی ترقی۔ سولہویں صدی عیسوی میں سوات کی تاریخ کا ایک نیا باب اس وقت شروع ہوا، جب ’’یوسف زیٔ افغان‘ ‘سوات پر حملہ آور ہوکر آہستہ آہستہ اسے قبضہ کرکے یہاں کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔
سوات پر قبضہ اور یہاں غلبہ حاصل کرنے کے باوجود یوسف زئیوں نے یہاں پر باقاعدہ حکومت کی داغ بیل ڈالنے اور کسی کو حکم ران بنانے کے بجائے قبائلی نظام اور طرز زندگی کو ترجیح دی۔ اس قبائلی نظام میں کسی فرد واحد کو حکم ران بنانے کے بجائے قبیلہ کے ایک سرکردہ فرد یا بڑے کے تحت مقامی سطح پر چھوٹے چھوٹے سربراہ چنے جاتے تھے۔ ابتدامیں ان قبائلی سربراہوں یا بڑوں کو ’’ مَلَک‘‘ کے لقب سے نوازا اور یاد کیا جاتا رہا۔ جیسا کہ یوسف زئیوں کی یہاں آمد اور قبضہ کے وقت ان کے سربراہ ملک احمد اور ملک شاہ منصور تھے۔ تاہم بعد میں ’’خان‘‘ کے لقب کا اضافہ دیکھنے کو ملا۔ خوشحال خان خٹک نے سترہویں صدی عیسوی میں سوات کے خوانین و ملکوں کا ذکر کیا ہے اور یہاں کے خوانین و ملکوں کے کردار پر تنقید بھی کی ہے۔
سولہویں صدی عیسوی میں یوسف زئیوں کے سوات پر قبضے کے وقت سے بیسویں صدی عیسوی میں ریاست سوات کے وجود میں آنے اور یہاں پر ایک منظم ریاست اور حکومتی ڈھانچہ قائم ہونے تک کے دور کو عرف عام میں ’’د پختو دور‘‘ یعنی پختو کا دور اور ’’د پختو زمانہ‘‘ یعنی پختو کا زمانہ کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ دور جس میں یہاں پر لوگوں کی زندگی ’’پختو‘‘ یا پختونوں کے ضابطۂ حیات کے تحت گزرتی تھی۔ واضح رہے کہ ’’پختو‘‘ نہ صرف پختونوں کی زبان کا نام ہے بلکہ یہ اس ضابطۂ حیات یا اصول اور قواعد و ضوابط کا نام بھی ہے، جس کے تحت پختون صدیوں تک کسی مرکزی حکومت اور حکم رانی کے بغیر منظم زندگی گزارتے رہے۔ (’’پختو‘‘ کی کچھ تفصیل کے لیے راقم کی انگریزی کتاب ’’دی نارتھ ویسٹ فرنٹیئر (خیبر پختونخوا): ایسیز آن ہسٹری) ، شائع کردہ اور اکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کا باب سوم ملاحظہ کیا جاسکتا ہے)۔
سوات میں یوسف زئیوں کے قبائلی نظام میں نہ صرف وہ دو حریف دھڑوں (جنہیں ڈلے کہا جاتا تھا) میں تقسیم رہے بلکہ ان کے چھوٹے بڑے قبائلی سربراہ بھی ہوتے تھے، جو ملک اور خان کے القاب سے ملقب تھے۔ ملک اور خان کے یہ منصب موروثی نہیں تھے، بلکہ قبیلہ کے متعلقہ افراد اپنے لیے ملک اور خان کا انتخاب کرتے۔ جس کو چاہتے اس منصب پہ فائز کرتے اور جس کو چاہتے اس منصب سے ہٹاتے۔ یہ مناصب اس حوالے سے تو موروثی نہیں تھے کہ یہ کسی خاص اصول کے تحت باپ سے بیٹے کو منتقل ہوں، لیکن وقت کے ساتھ اس حد تک موروثی یا خاندانی ہوگئے کہ بہ طور عمومی ملک اور خان کا انتخاب اسی خاندان کے افراد میں سے کیا جانے لگا۔ ایک اور اہم بات یہ کہ خاندان کا ہر فرد ملک یا خان نہیں کہلایا جاتا۔ ملک یا خان وہ خاص فرد ہی ہوتا تھا۔ اس کے گھرانے و خاندان کے دوسرے افراد اس لقب سے ملقب اور اس منصب پر فائز نہیں ہوتے تھے۔ یہی وجہ ے کہ مذکورہ منصب کے حصول کے لیے خاندان کے اندر بھی خاندان کے افراد کے مابین رسہ کشی اور جوڑ توڑ جاری رہتی، خاص کر چچیروں کے مابین، جس کی وجہ سے چچیروں کے لیے استعمال ہونے والا لفظ ’’تربور‘‘ دشمن کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا۔
وقت گزرنے کے ساتھ عمومی طور پر ملک کا منصب خان سے کم تر گردانا اور تصور کیا جانے لگا۔ تاہم کسی خاص ملک اور خان کی حیثیت کا دارومدار اس کے ذاتی اثر و رسوخ، طاقت اور تعلقات وغیرہ پہ منحصر ہوتا تھا۔ لہٰذا ہر ملک، ہر خان سے کم تر حیثیت کا حامل نہیں ہوتا تھا۔ ملک اور خان کے منصبوں پہ فائز افراد کو کئی ایک مراعات بھی حاصل ہوتے تھے، جن میں متعلقہ منصب کو حاصل عزت و و قار کے علاوہ بہ طور ’’سیریٔ‘‘ خاص زمین دی جاتی، جسے ’’د خانئی سیریٔ‘‘ (خان ہونے کی سیریٔ) اور ’’د ملکئی سیریٔ‘‘ ( مَلَک ہونے کی سیریٔ) کہا جاتا تھا۔
اس کے علاوہ ’’د میلمہ سیریٔ‘‘ مہمانوں کی مہمان داری کی خاطر سیریٔ) اور ’’د ڈاڈے سیریٔ‘‘ (مہمانوں کا بھٹوں سے تواضع کرنے کی خاطر سیریٔ)وغیرہ بھی ان کی تحویل میں ہوتی تھیں۔ علاوہ ازیں ان کے زیر سایہ یا حلقہ کے متعلقہ لوگ ان کے بیگار کرتے اور لڑکی کی شادی کے وقت متعلقہ ملک اور خان کی رضا مندی کے حصول کے علاوہ دلہا کا خاندان انہیں نقد رقم بھی ادا کرتا۔ مزید برآں متعلقہ افراد میں سے کسی کے جانور کے ذبح کرنے کی صورت میں (خواہ خیرات ہو یا شادی و غمی میں یا کوئی دوسری وجہ) اس کی ایک ران بھی متعلقہ خان یا ملک کو دی جاتی تھی۔ کئی اور ٹیکس یا نقد و جنس کی صورت میں ادائیگیاں بھی متعلقہ ملک اور خان کو کی جاتی تھیں۔ اور زمین کی خرید و فروخت یا لین دین کی صورت میں بھی متعلقہ ملک اور خان کی رضامندی اور اجازت درکار ہوتی تھی۔ ان خوانین اور ملکوں میں سے سرکردہ کے ذاتی قلعہ جات بھی ہوتے تھے۔
مذکورہ بالا اور کئی ایک اور حقوق و مراعات کے ساتھ ساتھ ان ملکوں اور خوانین کی کچھ ذمے داریاں و فرائض بھی تھیں، جن میں دوسروں اور مخالفین کے مقابلے میں اپنے متعلقہ لوگوں کے حقوق کا تحفظ اور خیال رکھنا، لڑائی کی صورت میں ان کی سرکردگی کرنا، جرگوں اور قبائلی اجتماعات میں ان کی نمائندگی کرنا اور ان کے مقدمات کے فیصلے کرنا وغیرہ شامل تھے۔
چوں کہ سوات کے یوسف زیٔ بہ حیثیت مجموعی دو متوازی دھڑوں، جنہیں عرف عام میں ڈلے (واحد ’’ڈلہ‘‘) کہا جاتا تھا، میں تقسیم تھے۔ لہٰذا مقامی اور علاقائی سطح پر بھی ہر دھڑے یا ڈلے کا ملک اور خان ہوتا تھا۔ تاریخ ریاست سوات و میاں گل عبدالودود المعروف باچا صاحب کی سوانح حیات کی ان باتوں سے بھی ان خوانین اور ملکوں اور اس نظام کی اہمیت عیاں ہوتی ہے کہ ’’یوسف زئی پٹھانوں میں پارٹی کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ سلسلہ تنظیم ابتداہی سے چلا آرہا ہے اور اب تک بدستور قائم ہے۔ طریقہ یہ ہے کہ اندرون سوات مختلف خطوں میں مثلاً خطہ بابوزیٔ، شامیزیٔ وغیرہ ہر اِک خطے میں دو معزز خوانین کی سرکردگی میں اس خطے کے پٹھانوں کی دو پارٹیاں ہوتی ہیں۔ پارٹی کا لیڈر’ ’خان‘‘ اپنی پارٹی کے افراد کی دنیاوی اور سیاسی مفادات کا نگران ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا ہے تو پارٹی کا اجلاس منعقد ہوتا ہے اور پھر اسی اجلاس میں کوئی متفقہ فیصلہ کیا جاتا ہے۔ پارٹی کے افراد، پارٹی لیڈر اور پارٹی کی وفاداری اور دوستی کے پابند ہوتے ہیں۔ لیکن علاقے کی دونوں پارٹیوں میں عموماً اختلافات اور دشمنی ہوا کرتی ہے۔ شادی اور غمی کی تقریبات میں، تنازعات اور مقدمات میں، پارٹی کا خان امداد اور تعاون بھی کرتا ہے۔ مختلف معاملات پر بحث اور مشورہ کرنے کے لیے خان کے مکان یعنی ڈیرے پر جمع ہوتے ہیں۔ اس لیے افغانی روایات کے مطابق مہمانداری بھی خان کے فرائض میں شامل ہے‘‘۔ اور یہ کہ ’’پارٹی کے وقار اور مفادا کو ہر حالت میں مقدم سمجھا جاتا ہے‘‘۔ (ملاحظہ ہو تاریخ ریاست سوات باچا صاحب کی سوانح حیات کے اردو نسخے کا فیروز سنز پشاور کے چھاپ شدہ ایڈیشن کے صفحات 146تا 148، جب کہ شعیب سنز مینگورہ کے شائع کردہ ایڈیشن کے صفحات 114تا 115)۔
یہاں یہ ذکر کرنا بے جا نہیں ہوگا کہ ریاست سوات کے حکمران باچا صاحب نے اپنی سوانح حیات میں پختو دور اور اس وقت کے بعض واقعات بیان کرکے خوانین کو جابر اور پختو کے دور کو وحشت اور بربریت کا دور ثابت کرنے کی جتن کی ہے (ملاحظہ ہو تاریخ ریاست سوات و باچا صاحب کی سوانح حیات کے اردو نسخہ فیروز سنز پشاور کے چھاپ شدہ ایڈیشن کے صفحات 165تا 167اور 203تا 219، جب کہ شعیب سنز مینگورہ کے شائع شدہ ایڈیشن کے صفحات 130تا 131اور 167تا 181)۔ دوسری جانب سراج الدین خان نے اپنی کتاب ’’سرگزشت سوات‘‘ میں پختو کے دور کے ذکر میں لکھا ہے کہ ’’خان نہ صرف اپنے قبیلے میں سیاسی اثر و رسوخ کا مالک ہوا کرتا تھا بلکہ اس کی حیثیت قبیلے کے رہنما کی بھی تھی۔ ہر قبیلے کے لوگ اپنے خان کو اپنا راہنما، بزرگ اور ہمدرد سمجھ کر دل و جان سے اس کی عزت کیا کرتے تھے۔ اور خان کے جنبش ِ آبرو پر جان کی بازی لگانا ایک معمولی کھیل سمجھتے تھے‘‘۔ جب کہ ’’خان کے ہر دلعزیزی کے اسباب‘‘ میں سراج الدین خان نے لکھا ہے کہ ’’خان کو اگر چہ اپنے قبیلے میں ایک خود مختار حاکم کی حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی۔ مگر وہ کسی طرح بھی اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے بالا تر نہ سمجھتا تھا۔ ہر اہم معاملہ میں قبیلہ کے لوگوں کو جمع کرکے ان سے مشورہ لیتا اور اُن کی رضا مندی اور مشورہ کے بعد کوئی اقدام کرتا تھا۔ خان قبیلہ کے لوگوں کے دُکھ درد میں برابر کا شریک رہتا تھا۔
خان میں بہادری اور دلیری کوٹ کوٹ کر بھری رہتی تھی اور جنگ کے موقع پر اپنے قبیلے کا کمان کیا کرتا تھا۔
خان اپنے وعدے کا نہایت پابند رہتا تھا۔ ایک دفعہ جب کسی بات کا وعدہ کیا کرتا تھا۔ اور پھر بڑے سے بڑا لالچ اور سخت سے سخت دباؤ اُسے اپنی بات سے منحرف نہیں کرسکتا تھا۔ مقامی زبان میں ’’ما جبہ کڑیدہ‘‘ یعنی جس بات کا وعدہ کرچکا ہوں وہ ہو کر رہے گی۔
خان کی زندگی میں دوغلے پن اور منافقت کا شائبہ تک نہ ہوتا تھا وہی بات کہتا جو اس کے دل میں ہوا کرتی تھی۔
خان کے ہاں اگر کوئی پناہ لیتا تو پھر اس کی حفاظت کے لیے ہر قسم کے خطرات قبول کرنے کے لیے تیار رہتا تھا۔
خان نہایت سادہ زندگی بسر کرتا تھا اور اخلاقی لحاظ سے خان ایک مضبوط کیرکٹر کا آدمی ہوتا تھا۔ اور اپنے گھریلو معاملات کے متعلق قبیلہ کے لوگ اس پر خاندان کے ایک بزرگ کی حیثیت سے اعتماد کرتے تھے۔
غرض یہ کہ خان اپنے قبیلے کا ایک ایسا راہنما تھا جسے قبیلہ کے لوگ دل و جان سے عزیز رکھتے تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ قبائلی جنگوں میں ہر قبیلہ کے لوگ خان کی ہدایت پر ہر قسم کے خطرات سے لاپروا ہوکر لڑتے تھے۔‘‘ (سرگزشت سوات، صفحات 9-8)
در حقیقت نہ تو سارے خان و ملک اتنے جابر و ظالم تھے، جیسا کہ باچا صاحب نے ان کو پیش کیا ہے۔ نہ اتنے رحم دل و ہر دلعزیز جیسا کہ سراج الدین خان نے پیش کیا ہے۔ یہ ہر ایک کی ذات پہ منحصر یا ذاتی خصوصیت تھی کہ وہ ظلم کرے یا رحم اور یا بین بین رہے۔ تاہم متعلقہ افراد کا خان و ملک کے انتخاب اور معزولی میں کلیدی کردار خوانین و ملکوں پر بہ حیثیت مجموعی ایک روک لگانے والی قوت (ریسٹریننگ فورس) کا کام کرتا۔ اس لیے کہ کسی خان و ملک کا زیادہ ظلم و جبر حتیٰ کہ کوئی گیر معقول وغیر معروف کام و اقدام اس کے منصب سے ہٹائے جانے اور معزول ہونے کا سبب و عامل بن سکتا تھا۔ لہٰذا بعض زیادتیوں اور جبر کے ہوتے ہوئے بھی خوانین و ملکوں کو بہ حیثیت مجموعی اپنے قام یا عوام کا دل اور ان کے مفادات کا خیال رکھنا پڑتا تھا۔ ان میں سے بعض خان اتنے بڑے اور طاقت ور تھے کہ اپنے ساتھ ناغارے (ڈھول) رکھتے اور اس وجہ سے ’’د ناغارو خان‘‘ کہلائے جاتے تھے، جیسا کہ نیک پی خیل کے کوزہ بانڈیٔ کا ’’زرین خان‘‘۔ جب کہ بعض خوانین کی بہ حیثیت خان باقاعدہ دستار بندی کی جاتی تھی، جس کی وجہ سے انہیں ’’د پگڑیٔ خان‘‘ یعنی دستار کا خان کہا جاتا تھا۔
1915ء میں ریاست سوات کے معرض وجود میں آنے اور ستمبر 1917ء میں باچا صاحب کے حکم ران بننے کے بعد یہی نظام اور طریقۂ کار برقرار رہا۔ تاہم باچا صاحب نے اپنی اور ریاست کی گرفت کسی حد تک مضبوط و مستحکم کرنے کے بعد خوانین اور ملکوں کو طاقت اور کردار کو کنٹرول کرنے کی ٹھانی۔ اس ضمن میں آپ کا اہم قدم خوانین و ملکوں کے تقرر اور معزولی کے اختیارات متعلقہ عوام سے اپنے ہاتھ میں لینا تھا۔ اب بہ حیثیت حکم ران ریاست وہ جس کو چاہتا، اسے خان یا ملک کے منصب پر فائز کرتا اور جسے چاہتا اسے معزول کرتا اور یا جسے چاہتا بہ حیثیت خان و ملک اس کے رتبے کو بڑھاتا اور اسے تقویت پہنچاتا اور جسے چاہتا، اس کے رتبے و مقام کو گٹھاتا اور اسے زوال پذیر کرتا۔
باچا صاحب کا ایک اور قدم ان خوانین و ملکوں کو ریاست کی طرف سے ’’ماجب‘‘ (مواجب) کی ادائیگی تھا۔ ’’ماجب‘‘ یا وظیفہ کی رقم سے ریاست اور حکم ران کے ہاں اس متعلقہ خان و ملک کے طور پہ ’’ہوز ہو آف دی دیر، سوات اینڈ چترال ایجنسی کو ریکٹڈ اپ ٹو فرسٹ جولائی 1950ء ‘‘ کے مطابق ہادی خان آف سیج بنڑ کو تین سو روپے اور شاکر اللہ خان آف غالیگے کو چار سو روپے سالانہ ماجب ملتا تھا۔ جب کہ بدر سے ملک آف سرسینئی کو چار سو چالیس روپے ملتا تھا۔ اس طرح کامران ملک آف شموزی کو سالانہ ایک ہزار روپیہ جب کہ دوستے خان آف بریکوٹ کو دو سو اسی روپے، محمد زمان خان آف کوٹہ کو سات سو روپے، نوشاد خان آف ڈھیریٔ کو سات سو روپے، بہرام خان آف شاہ ڈھیریٔ کو آٹھ سو دس روپے اور شاہ وزیر خان آف توتانو بانڈیٔ کو آٹھ سو دس روپے سالانہ ماجب ملا کرتا تھا۔ اس ’’ہوز ہو‘‘ میں سوات میں سب سے زیادہ ماجب محمد امیر خان المعروف امیر خان آف برہ بانڈیٔ کا سولہ سو روپے سالانہ جب کہ سلطنت خان آف جورہ المعروف خان بہادر صاحب کا پندرہ سو روپے سالانہ درج ہے۔ علاوہ ’’ماجب‘‘ کے خان و ملک کو اس کے حلقہ کے افراد پر کسی جرم میں عائد کیے جانے والے جرمانے میں سے تیسرا حصہ بھی دیا جانے لگا جسے ’’ملکانہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ اور یہی خوانین و ملک اپنے متعلقین یا حامیوں اور ڈلہ کے ضمن میں حکم ران اور دوسرے ریاستی حکام کے ہاں پیش ہوکر سفارش بھی کرتے۔
اس طرح ریاست سوات کے معرض وجود میں آنے کے بعد باچا صاحب کے دور حکم رانی میں خوانین اور ملکوں یا خان و ملک نظام میں کئی ایک بنیادی اور کلیدی تبدیلیاں لائی گئیں اور ان کے پختو دور کی ہیئت و حیثیت کو بڑی حد تک تبدیل کیا گیا۔ تاہم نہ صرف پختو دور میں رائج ان کے اپنے متعلقین اور حلقہ کے لوگوں پر رائج حقوق اور بیگار وغیرہ کو برقرار رکھا گیا بلکہ ریاست اور حکم ران کی پشت پناہی ھاصل ہونے اور عوام پر اپنے منصب کو بر قرار رکھنے کے لیے پرانا جیسا انحصار ختم ہونے کی وجہ سے ان خوانین و ملکوں میں سے بہت سے اپنی چیرہ دستیوں اور جبر میں دلیر ہوگئے۔ خاص کر وہ جو باچا صاحب کے خاص حامی اور منظور نظر تھے۔ ایسے خوانین میں تحصیل مٹہ کے جورہ گاؤں کے سلطنت خان المعروف خان بہادر صاحب کی چیرہ دستیوں اور ظلم و جبر کی داستانیں زبان زد خاص و عام رہی ہیں۔
بارہ دسمبر 1949ء کو میاں گل جہاں زیب المعروف والی صاحب کے حکم ران بننے کے بعد والی صاحب کے دعویٰ کے مطابق آپ نے خوانین اور ملکوں کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کی۔ اس لیے کہ آپ دنیا میں رو پذیر تبدیلیوں کو پڑھ رہے تھے اور محسوس بھی کررہے تھے۔ لہٰذا آپ کو معلوم تھا کہ یہ مروجہ نظام زیادہ دیر تک چل نہیں پائے گا۔ والی صاحب کی اس کوشش کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ بعض خوانین نے آپ کے خلاف بغاوت کی سازش کی، جس کے قبل از وقت طشت ازبام ہونے پر ان کو ریاست بدر ہونا پڑا۔
والی صاحب کی حکم رانی کے دباؤ کے بل بوتے پر خوانین اور ملک اپنے حلقہ کے بعض لوگوں کے ضمن میں بعض حقوق ٹلگیری (یعنی بیگار، دلہن کی شادی میں دولہا کے خاندان سے رقم کی وصولی، ذبح شدہ جانور کی ایک ران وصول کرنا وغیرہ) سے دست بردار ہوگئے۔ مثال کے طور پہ ضلعی محافظ خانہ سوات میں موجود والی صاحب کے دفتر کے ایک رجسٹر ’’کتاب فیصلہ جات والی صاحب‘‘ میں علاقہ نیک پی خیل کے بعض خوانین نے تیس اکتوبر 1951ء کو یہ اقرار نامہ لکھ کے دیا ہے کہ ہم نیک پی خیل کے مسمی امیر دوست خان، محمد خان، ایوب خان، تاج محمد خان، شاہ وزیر خان اپنی مرضی سے یہ اقرار کرتے ہیں اور لکھ کے دیتے ہیں کہ ہم سب کے جتنے بھی ٹلگری ہیں وہ ہمارے ٹلگیری سے آزاد ہوں گے۔ ان پہ ہمارا کوئی حق ٹلگیری نہیں ہوگا۔ ہر ایک صاحب دفتر (مالک دوتر) میدان و پہاڑ (سم او غر) کے جائیداد کے اپنے اپنے فقیر لیں گے۔ البتہ حقوق مشری مثلاً پگڑی، جرائم کے جرمانوں میں تیسرا حصہ بر قرار رہے گا۔ پہاڑی و میدانی جائیداد کا فقیر نامہ لوگ ہمارا بیگار حسب دستور سابق کرے گا۔ پختونوں پہ ہمارا کوئی حق ٹلگیری نہیں ہوگا۔ گاؤں کے ستانہ دار بھی ہمارے رسم و رواج سے آزاد ہوں گے۔ لکھ کے دیتے ہیں کہ سند رہے۔ فقط۔
واضح رہے کہ کسی کے ملکیتی مکان میں رہنے والے کو اس کا فقیر اور کنڈری کہا جاتا تھا، جو کہ نقد کرایہ نہیں بلکہ بیگار وغیرہ کی صورت میں مالک مکان کو ادائیگی اور اس کی بہ وقت ضرورت خدمت کرتا رہتا تھا اور ایسے لوگوں کو بہ حیثیت مجموعی فقیر نامہ کہا جاتا تھا۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ سوات کے سماج میں ہر کوئی پختون نہیں مانا جاتا۔ صرف وہ لوگ پختون کہے اور مانے جاتے ہیں، جو ایک خاص پختون یا افغان قبیلہ سے نسبی تعلق کے حامل ہو اور جو ’’دوتر‘‘ یا دفتر جائیداد میں حصہ دار کو بھی بر قرار رکھ رہے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں ملک اور خان کے حلقہ کے لوگوں کو ان کا ٹلگری کہا جاتا تھا اور ان پر ملک و خان کے ذکر شدہ حقوق وغیرہ کو حقوق ٹلگیری کہا جاتا تھا۔ جب کہ سید، میاں اور ملا بہ حیثیت مجموعی ستانہ دار کہلائے جاتے رہے ہیں۔
والی صاحب اپنے دور حکم رانی میں اگر چہ خوانین و ملکوں کے سب اثر و رسوخ اور تمام اختیارات و مراعات کو ختم کرنے میں کام یاب تو نہیں ہوا۔ اس لیے کہ اس کو بھی اپنی حکم رانی کو قائم رکھنے کی خاطر اس نظام کو کسی نہ کسی صورت قائم رکھنا تھا، اور اس کا مکمل خاتمہ بہ یک جنبش قلم یا یک دم آسان بھی نہیں تھا۔ تاہم وہ اس حد تک کام یاب رہا کہ ہر مالک زمین کو اپنی ملکیت کا ملک قرار دیا، اور اس طرح ریاستی حکم ران کے نام زد خان و ملک ایسے مالکان زمین دفتر (دوتر) پر حقوق ملکانہ سے محروم ہوئے۔ تاہم مقدمات کے فیصلوں کے وقت خوانین و مَلَکوں کی سفارش اور اثر انداز ہونے کی کوشش اب بھی ایک عام سی بات تھی۔ اس طرح مقدمات کے فیصلوں کے ضمن میں اگر چہ خان و ملک ریاست یا حکم ران و ریاستی اہل کاروں اور عوام کے درمیان واسط یا گماشتے (مڈل مین یا بروکر) کا کردار ادا کرتے رہے تاہم عوام ان کے اپنے طور کیے گئے فیصلے ماننے کے پابند نہیں رہے۔
ریاست سوات میں باچا صاحب اور والی صاحب کے دور حکم رانی میں خوانین و ملکوں کی قوت و طاقت مکمل طور پہ ختم اور تحلیل نہیں کی گئی بلکہ جو وفادار تھے، ان کو دوسرے طریقوں اور ذرائع سے زیادہ مضبوط اور طاقت ور بنادیا گیا اور ان کی وفاداری کو ریاست اور حکم رانی کی طاقت کو قائم رکھنے کے لیے استعمال کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ تاہم ان کو مکمل طور پہ غیر اہم نہ بنانے کے باوجود ان کی حیثیت اور طاقت و قوت کی نوعیت میں بنیادی تبدیلی لائی گئی۔
پندرہ اگست 1969ء کو ’’ریگولیشن آف 1969ء‘‘ یا ’’دیر، چترال اینڈ سوات (ایڈمنسٹریشن) ریگولیشن، 1969‘‘ کے تحت والی صاحب کی حکم رانی اور ریاست سوات کے باقاعدہ خاتمے کے بعد پرانا ریاستی طریقہ رسمی طور پہ بر قرار رہا اور ریاستی دور کے خان و ملک کے منصبوں پہ سرفراز افراد کو ان کا وظیفہ یا ’’ماجب‘‘ ملتا رہا۔ تاہم اس دوران میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نعروں و اعلانات اور بر سر اقتدار آنے کے بعد بعض پالیسیوں کی وجہ سے سوات کے سماجی نظام میں ڈھیر ساری بنیادی تبدیلیاں آئیں۔ عام عوام یا کمی کمین، خوانین و ملکوں کے پرانے رسوم اور بیگار وغیرہ سے باغی ہونے لگے اور ان کا پرانا رعب و دبدبہ، طاقت و قوت اور معاشرہ میں گرفت بر قرار نہیں رہی۔ دوسری طرف اس صوبہ میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) اور جمعیت العلمائے اسلام کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ اس مخلوط حکومت میں وزیر اطلاعات و مواصلات، سوات سے تعلق رکھنے والے افضل خان لالا کے دعویٰ کے مطابق آپ نے خوانین و ملکوں کو دیے جانے والے’’ماج‘‘ کو ختم کیا۔ پس ریاست سوات کے خاتمے کے بعد نظام حکومت اور سماجی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں نے سوات میں خان و ملک نظام کو عملی طور پہ ختم کردیا۔ جب کہ برائے نام خان و ملک یارہی سہی کسر ’’ماجب‘‘ کے نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی پوری ہوئی۔ واضح رہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ افضل خان لالا نے ’’ماجب‘‘ نظام کو ختم کرنے کی جتن اس وجہ سے کی کہ آپ بہ ذات خود خان کے منصب پہ فائز نہیں تھے۔ لہٰذا اس طرح دوسروں کو بھی محروم کرکے اپنی برابر لانے کی کوشش کی۔
اس طرح 1970ء کی دہائی میں سوات میں خانی و ملکی کا نہ وہ پرانا قبائلی نظام رہا اور نہ ریاست سوات والا۔ سابقہ خان و ملک اب نام کے خان و ملک رہے۔ عملی طور پہ ان کا پرانا اور سابقہ کردار اور حیثیت ختم ہوکے رہ گئی۔ اب نہ تو قبائلی نظام کی طرح عوام کسی کو خان و ملک کے منصب سے سرفراز کرتے ہیں اور نہ ریاست سوات کی طرح پاکستانی یا صوبائی حکومت۔ اگر چہ ان پرانے خوانین اور ملکوں کی ساری اولاد اور خاندام بزعم خویش خان و ملک ہے اور خان و ملک ہونے کی دعوے دار بھی ہے، لیکن جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا ہے نہ تو قبائلی نظام میں اور نہ ریاست سوات میں پورا خاندان یا خان و ملک کی ساری اولاد خان و ملک ہوتی۔ خان و ملک ایک خاص فرد ہی ہوتا۔ اب چوں کہ نہ عوام کسی کو خان و ملک نام زد کرتے ہیں اور نہ حکومت، اور نہ خان و ملک ہونے کے موجودہ دعوے داروں کا وہ قبائلی یا ریاست سوات والا کردار اور حیثیت باقی رہی ہے۔ لہٰذا فارسی کے مقولہ ’’پدرم سلطان بود‘‘ کی مانند پہ دل کو بہلانے کی خاطر خان و ملک کا دعوے دار ہونا ہی ہے، عملاً کچھ بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سالوں میں نیک پی خیل امن جرگہ یا نیک پی خیل قومی جرگہ کے نام سے فوج کے سامنے لائے ہوئے بعض افراد کے مابین دو ڈھائی سال قبل سربراہ بنائے جانے کی رسہ کشی میں اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنے کی خاطر ذاتی نام اور خان و ملک وغیرہ کا منصب، کارکردگی اور کارنامے نہ ہونے کی وجہ سے یہ جتن دیکھنے کو ملے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ کس کا دادا، پردادا بڑا خان اور اونچی حیثیت کا مالک تھا۔