جب میں ضلع کوہستان کے بارے میں کوئی بری خبر سنتا ہوں، تو مجھے فطری طور پر بہت دُکھ ہوتا ہے۔ ضلع کوہستان ریاستِ سوات کا وہ واحد حصہ ہے جو نہایت پُرامن طریقے سے ریاست کی عمل داری میں آیا۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ اس عمل میں وہ ہزاروں سپاہی بھی مؤثر کردار ادا کرچکے تھے جو سپہ سالار احمد علی کے زیرِ کمان وہاں پر بھیجے گئے تھے، مگر سب سے اہم رول کا ناشاہ پور کے پیر داد خان کا تھا جس نے کوہستان کی سر بر آوردہ شخصیات کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ سوات کی حکومت کی بالادستی تسلیم کریں۔ روزِ اول سے لے کر ریاست کے ادغام تک کوہستان، سوات کا سب سے پر امن حصہ رہا تھا۔ کوہستان کے الحاق سے ریاست کے پہلے سے طے شدہ سرحد یعنی ’’دریائے سندھ‘‘ کے تعین کا مسئلہ حل ہوگیا۔ پہلے پہلے پیر داد خان فوجی اور سول دونوں امور کے انچارج رہے، بعد میں جب کوہستان کو ’’حاکمی‘‘ کا درجہ دیا گیا، تو یہاں پر ایک نہایت قابل، ذہین اور مستعد منتظم چوگا (پورن) کے عظیم خان کو حاکم مقرر کردیا گیا۔ موصوف شاید ریاستی تاریخ کے واحد علاقائی سربراہ تھے، جو پچیس سال کی طویل مدت ایک ہی جگہ پر بطورِ حاکم خدمات سرانجام دیتے رہے۔
کوہستان کے لوگوں پر سب سے زیادہ اثر و رسوخ علمائے کرام کا ہوتا ہے۔ وہ نہایت راسخ العقیدہ سنی مسلمان ہیں اور وہاں پر کسی اور عقیدے کی گنجائش ہی نہیں۔ علمائے کرام کے بعد موصوف حاکم صاحب، واحد ایسے غیر مقامی تھے، جن کو اہلِ کوہستان ایک حاکم سے زیادہ باپ کی طرح چاہتے تھے۔ وہ ان کے ہر حکم پر بلا تأمل عمل کرتے تھے اور اُن کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار تھے۔ ایک بار اس رُبع صدی کے درمیان میں ریاستی حکومت نے اُن کا ’’ٹرانسفر‘‘ کروا دیا اور ایک اور صاحب کو پٹن بھیج دیا۔ اہلِ علاقہ نے اس کا سامان تک حاکم کی سرکاری رہائش گاہ میں رکھنے نہیں دیا اور تمام سربر آوردہ ملکانان، سیدوشریف جرگے کی صورت میں آگئے اور مطالبہ کیا کہ اُن کے سرخ بالوں والے ’’باچا‘‘ کو فوری طور پر واپس بھجوادیں۔ اُن کا یہ مطالبہ فوراً تسلیم کرکے عظیم خان آف چوگا کو واپس پٹن بھیج دیا گیا۔ موصوف ضعیف العمری تک وہاں پر تعینات رہے۔ اس پوری رُبع صدی کے دوران میں حاکمی کی حدود میں کسی قسم کے بڑے جرم کا ارتکاب نہیں ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ کوہستان کے عوام کا اُن پر غیر متزلزل اعتماد اور مکمل وفاداری تھی۔ ہمیں موصوف کے دورِ حاکمی میں دوبار پٹن جانے کا موقع ملا۔ وہاں تک جو سڑک بوٹیال سے شروع ہوتی تھی، نہایت دشوار گزار اور خطرناک تھی۔ نیچے بہت زیادہ گہرائی میں دریائے سندھ برق رفتاری سے نشیب کی طرف رواں دواں ہے۔ ریاست کے ساتھ کسی قسم کی بھاری مشینری نہیں تھی۔ فوجی سپاہیوں نے کدالوں اور جمپروں (Jumpers) کی مدد سے یہ سڑک بنائی تھی۔ بعد میں یہی سڑک شاہراہِ ریشم کی بنیاد بنی اور سوائے ایک آدھ جگہ الائمنٹ کی تبدیلی کے باقی سارا کام اور توسیع اُس خاکے پر ہوگئی۔
ایک بار ہم اپنے افسر محمد کریم صاحب کی معیت میں سرکاری پک اَپ میں گئے تھے۔ حاکم صاحب پٹن کے مہماں خانے میں دوپہر کے کھانے کے بعد زیرِ تعمیر ہائی اسکول کا معائنہ کیا۔ پھر آرام کرنے کی غرض سے چارپائیوں پر لیٹ گئے۔ شام کی چائے پر محمد کریم صاحب کی خصوصی فرمائش کے مطابق حاکم صاحب کے گھر کی بنی ہوئی مشہور مکئی کی روٹی کھانے کو ملی۔ اس روٹی کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ منھ میں رکھتے ہی بتاشے کی طرح گھل جاتی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ روٹی والئی سوات کو بھی بہت مرغوب تھی اور جب بھی پٹن کے دورے پر تشریف لاتے تھے، تو یہی روٹی تناول فرماتے تھے ۔ انھوں نے شاہی محل کے دوخاد ماؤں کو بھی چند دنوں کے لیے حاکم صاحب کے گھر بھجوایا تھا، تاکہ اُن کے ہاں اس کے پکانے کے اجزا اور ترکیب سیکھ لیں۔ محمد کریم صاحب کے استفسار پر حاکم پٹن نے اس کا طریقہ کچھ اس طرح بتایا تھا کہ مکئی کو گرم پن چکی سے پسوالیں۔ حسبِ ضرورت آٹا لیں اور اُس کو خالص دودھ اور مکھن یا دیسی گھی میں انڈے ڈال کر گوندھ لیں اور توے پر ہلکی آنچ پر پکالیں۔ ہمارے بہت سے ساتھیوں اور خود ہم نے کئی بار اسی ترکیب سے روٹی پکوائی، لیکن وہ پٹن والی بات پھر بھی نہ بن سکی۔ اُس دن ہماری موجودگی میں ایک چھوٹا سا طیارہ آیا اور تحصیل کے سامنے کھلے میدان میں بنے ہوئے ائیر اسٹرپ (Air Strip) پر ٹیکسی کرتا ہوا عین دریا کے کنارے اونچائی پر رُک گیا۔ اس میں سے دو پائلٹ اُتر کر حاکم صاحب کے پاس آگئے۔ ہم سب سے ہاتھ ملایا اور ہمارے ساتھ چائے میں شریک ہوگئے۔ حاکم صاحب شاید اُن کو جانتے تھے، کیوں کہ وہ اُن دونوں کو نام لے کر مخاطب کرتے تھے اور وہ بھی اُن کے ساتھ ادب کا رویہ اپنائے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ دونوں رخصت ہوگئے ۔ طیارے کا رُخ تحصیل کی طرف کرکے اُڑان کی تیاری کرنے لگے۔ جب انجن ’’وارم اَپ‘‘ ہوگئے، تو تیزی سے دوڑتے ہوئے تحصیل کے بالکل قریب ہی ’’ٹیک آف‘‘ کیا۔ حاکم صاحب نے بتایا کہ یہ پاکستان ائیر فورس کے پائلٹ تھے اور اکثر تربیتی پرواز کے دوران میں یہاں لینڈ کرتے ہیں۔
دوسری دفعہ حاکم صاحب موصوف کے عہد میں، مَیں اور میرے ایک ساتھی مرحوم محمد اسماعیل آف کبل چندا خورہ کار کے ذریعے پٹن گئے تھے۔ یہ ایک ٹیکسی تھی اور چون ماڈل کی پرانی ’’شیور لیٹ‘‘ گاڑی تھی۔ اُن دنوں مینگورہ شہر میں صرف تین ٹیکسیاں تھیں اور یہ تینوں ایک ہی شخص یعنی ’’گلشن ماما‘‘ کی تھیں۔ جو ’’گلشن ٹریول‘‘ کے نام سے یہ کاروبار کرتے تھے۔ ایک گاڑی وہ خود چلاتے تھے، دوسری سیدوشریف کے رہنے والے ’’شاہ رحمان اُستاد‘‘ اور تیسری ’’محمد اکبر اُستاد‘‘ کے پاس تھی۔ محمد اکبر کو لوگ عوامی زبان میں ’’مامداکبر‘‘ کہتے تھے ۔ ’’گلشن ماما‘‘ نے جب خود گاڑی چلانی چھوڑدی، تو اُن کے بیٹے بخت مند خان وہی گاڑی چلانے لگے۔ بعد میں انہوں نے کاروبار شروع کیا، اور معدنیات کی تلاش اور اُن کو ’’ڈیولپ‘‘ کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ بونیر کی طرف کڑاکڑ میں اُن کی ’’ڈولومائٹ‘‘ کی ایک کان لیز پر تھی۔ اس کاروبار میں انہوں نے بہت ترقی کی۔ آج کل کا مجھے معلوم نہیں کہ اُن کا یا ان کے خاندان کا کیا حال ہے؟ حاکم پٹن کے بارے میں صرف اتنا پتا ہے کہ اُن کے ایک صاحب زادے عنایت اللہ خان سوات میں ادغام کے بعد اسسٹنٹ کمشنر رہ چکے ہیں۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔