جو لوگ بات بات پر اسلحہ نکالتے ہیں، تو کبھی کبھی جذبات کی رو میں بہہ کر ایسی حرکت کا ارتکاب کرجاتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کی اپنی زندگی خطرے میں پڑجاتی ہے بلکہ بعض اوقات یہ سلسلہ نسلوں تک چلتا رہتا ہے۔ ایک دفعہ ایسا ہی واقعہ ایک عوامی شاعر کے ساتھ پیش آیا۔ موصوف کا نام میں حذف کرنا چاہتا ہوں، پھر بھی اگر کوئی تاریخ کی درستی چاہے، تو اس کے لیے عرض ہے کہ یہ واقعہ والئی سوات کے دور میں پیش آیا تھا۔
شاعر موصوف ریاست کی حدود ہی کے رہنے والے تھے۔ وہ چاربیتہ اور رباعی کے اُستاد سمجھے جاتے تھے۔ سرکاری ملازم بھی تھے اور سیدو شریف سے کوئی ساٹھ میل دور ایک تحصیل میں ملازم تھے۔ اس دور کی ادبی سرگرمیوں کی مناسبت سے ان کا نام شعری ذوق رکھنے والوں کے لیے اجنبی نہ تھا۔ خصوصاً ہر سال بارہ دسمبر کو والئی سوات کے جشنِ تاج پوشی کے سلسلے میں سیدو شریف میں جو مشاعرے منعقدکیے جاتے، اُن میں وہ ضرور شامل ہوتے۔ ان ایام میں اخبارات و جرائد کی اتنی بھر مار نہیں تھی اور صوبہ پختون خوا اس سلسلے میں بہت ہی پیچھے تھا۔ پشاور کے معدودے چند ’’پیری یاڈیکلز‘‘ کے علاوہ مردان سے اور کوہاٹ سے ایک جریدہ ’’ہمدم‘‘ اور ایک اخبار نکلتا تھا جس کا نام میں اس وقت بھول گیا ہوں۔ کچھ نام یاد ہیں جیسے ’’دیدہ ور، بانگ حرم‘‘وغیرہ۔ یہ جرائد بھی اسی جشن کے سلسلے میں خصوصی ضمیمے شائع کرتے جن میں مقامی شاعروں کے علاوہ صوبہ بھر کے نامور اساتذہ کا کلام شامل ہوتا، جو والئی سوات کے قصائد وغیرہ ہوتا تھا۔ ان تمام سرگرمیوں کے کرتا دھرتا، والئی سوات کے ایک نہایت وفادار، عالم و فاضل اور میٹھے درد بھرے لہجے کے شاعر سیف الملوک صدیقی تھے، تو شاعر موصوف کو بھی صدیقی صاحب ہی کی سرپرستی حاصل تھی۔
ایک دن شاعر موصوف ایک بس میں سیدو شریف کی طرف آرہے تھے کہ کسی بات پر اُن کی اپنے ہی گاؤں کے ایک شخص سے تلخ کلامی شروع ہوئی۔ بات بڑھتی گئی، لوگوں نے بیچ بچاؤ کی کوشش کی مگر بے سود۔ شاعر موصوف نے فوراً پستول نکالا اور مخالف شخص پر گولی چلائی، مگر گولی اُس کے بجائے ایک اور آدمی کو لگی اور وہ لمحوں کے اندر مرگیا۔ باقی لوگوں نے اس کو پکڑا اوراُس کو وہیں پر مارنے کی از خود کوشش کی کہ اچانک قریبی گاؤں کے لوگ اور ایک سرکاری صوبیدار میجر آگئے اور شاعر صاحب کو اُن سے چھڑا کر گاؤں لے گئے۔ پھر جب اس کی حالت سنبھلی، تو اسے سیدھا سیدو شریف لے آئے۔ جوں ہی وہ والئی سوات کے سامنے پیش ہوئے، تو رسمی کارروائی کے فوراً بعد ہی اس پر قصاص کا حکم صادر کیا۔ اس کے لکھے ہوئے قصائد انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ اگرچہ صدیقی صاحب نے اس کی جان بچانے کی بہت کوشش کی، مگر جو اٹل تھا وہ ہوکر ہی رہا۔
جب ان کو قصاص کے لیے سنٹرل جیل کے قریب ایک گہری کھائی میں اُتارا جارہا تھا، تو ان کی حالت دیدنی تھی۔ وہ کبھی اونچی آواز میں کلمہ پڑھتے اور کبھی عشقیہ چاربیتہ الاپتے اور اسی عالم میں مقتول کے بھائی نے اُسے پشت کی جانب سے دل میں گولی اُتارتے ہوئے گرا دیا۔ کوئی دس منٹ بعد ڈاکٹر نے دیکھا کہ وہ زندہ ہے، تو مقتول کے وارث کو کہا کہ اسے دوسری گولی مارو۔ شاعر صاحب زور سے بولے: ’’مجھے دوسری گولی مت مارو، میں شہید ہوگیا ہوں۔‘‘ قریب ہی کھڑے ایک شخص نے کہا: ’’تم نے تو بھی ایک شخص کو شہید کیا تھا، تو اب بھگتو، یہ تو دنیا کی سزا ہے۔ اب آخرت کی فکر کرو۔‘‘ اُس کو ایک اور گولی مار دی گئی، تو وہ ٹھنڈا ہوگیا۔ اُس کی چارپائی کئی گھنٹے سڑک کے کنارے جہاں آج کل میڈیکل کالج ہے، ایک اونچے اور گھنے شیشم کے درخت کے نیچے پڑی تھی اور اُس کے زخموں سے خون رس کر نیچے زمین میں جذب ہورہا تھا۔ اس کے ورثا ابھی تک لاش لینے نہیں آئے تھے اور وہ بے یارو مددگار پڑا تھا۔ سیدو کے لوگ آکر اس کی لاش کو کچھ دیر کے لیے تکتے رہتے اور پھر آگے بڑھتے۔
ایک اور واقعہ بالکل حقیقی حاضرِ خدمت ہے اور اس سے یہ سبق حاصل کریں کہ اپنے بیٹے کو کبھی غلط اور انتہائی اقدام کا مشورہ نہ دیں۔ ہمارے قریبی گاؤں کا ایک لڑکا چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ اُس کی والدہ مر چکی تھی اور اس کے والد نے دوسری شادی کی تھی۔ لڑکا شکل و صورت کا اچھا تھا اور بہت ذہین طالب علم تھا۔ اُس کا ایک چچازاد اُسے اکثر تنگ کرتا رہتا تھا۔ اُس نے اپنے والد سے شکایت کی۔ والد نے بجائے معاملہ کو اپنے بڑوں کے درمیان لانے کے، بچے کو ایک تیز چھری دی کہ اگلی بار اگر وہ لڑکا تمھیں تنگ کرے، تو اُسے قتل کردو۔ اگلے ہی دن لڑکے نے اپنے ’’تربور‘‘ (چچا زاد) کو اسکول سے گھر جاتے ہوئے اُسی چھری سے مار مار کر قتل کر دیا اور خود کو قانون کے حوالے کیا۔ جب وہ لڑکا اور اس کا باپ والئی سوات کے سامنے لائے گئے، تو اُن کو اس معصوم اور غیرت مند بچے پر بہت ترس آگیا اور حکام کو کہا کہ اگر مقتول لڑکے کے ورثا راضی نامہ کریں، تو شاید اس بچے کی زندگی بچ جائے۔ لہٰذا باپ بیٹے دونوں کو جیل بھیج دیا جائے۔ جیل میں اس ظالم باپ کا رویہ اپنے بچے کے ساتھ بالکل غیر انسانی ہوا کرتا تھا۔ وہ اُس کی بھنویں کھینچتا تھا، اس کے جسم کو دانتوں سے کاٹتا تھا اور کہتا تھا: ’’بدنصیب! قتل تم نے کیا ہے اور جیل میں مجھے لایا گیا ہے۔‘‘ بیٹا بے چارا رورو کر کہتا: ’’بابا! آپ نے مجھے ایسا کرنے پر اُکسایا اور آپ نے مجھے چھری لاکر دی۔‘‘ جب صلح کی کوشش ناکام ہوگئی، تو باپ کو جیل سے نکال دیا گیا اور اگلے دن بیٹے کو اپنے ہی چچا نے جیل والی ’’مرگو کندہ‘‘ (موت کی کھائی) میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ بچے کی لاش اوپر لائی گئی اور جیل کے قریب شاہی قبرستان کے گیٹ کے پاس رکھ دی گئی۔ لڑکے نے اسکول کا ملیشیا یونی فارم پہنا ہوا تھا اور سر پر اسکول والی ٹوپی تھی۔ اُس کا معصوم چہرہ بہت پُرسکون لگ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ اُس کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ جم کر رہ گئی ہے۔ لوگوں کا جم غفیر اُس کے دیدار کے لیے آرہا تھا اور اُس کی اندوہناک موت پر اپنی دلی تعزیت کا اظہار کررہا تھا۔ بچے کا والد جو بہت بعد میں آیا تھا۔ لڑکے کے سرہانے بیٹھا رو رہا تھا۔ اس کی ساری حرکتیں مصنوعی اور بے جان لگ رہی تھیں۔ اُس نے جیب سے ایک لفافہ نکالا اور چلا کر بولا: ’’دیکھو لوگوں میں یہ ہزاروں روپیہ لایا تھا کہ اپنے بیٹے کو چھڑاؤں۔ ظالموں نے میرا انتظار نہیں کیا۔‘‘ اس دوران میں سیدو شریف کی کئی خواتین بھی لڑکے کی کم عمری اور مظلومیت کا سن کر اکٹھا ہونے لگیں اور یوں وہ جگہ ایک پورا ماتم کدہ بن گیا۔ اس دن میری مرحومہ نانی بھی ابوہا سے آئی تھیں، میں چھوٹا تھا اور شاید اُس لڑکے کا ہم عمر تھا۔ نانی مجھے ساتھ لے کر اس لڑکے کو دیکھنے کے لیے چلی گئیں۔ وہ شخص اُن کا اخوند خیل ہونے کے ناتے رشتہ دار تھا۔ جب انھوں نے اُس کی یہ ڈرامہ بازی دیکھی، تو جوتا اُتار کر اسے دو تین وار جھڑ دیے اور اس کو بہت بد دعائیں دیں کہ ’’پہلے اپنے بیٹے سے قتل کروایا اور اب یہ مگر مچھ کے آنسو بہا رہا ہے۔ لعنت ہو تم پر بن ماں کے بچے کو کس طرح کی موت دلوا دی۔‘‘ لوگوں نے بڑی مشکل سے اُس آدمی کو مزید پٹائی سے بچایا۔
وہ شخص چلا رہا تھا کہ ’’میں کتنا بد نصیب ہوں۔ ایک تو میرا بیٹا چلا گیا اوپر سے ’’ابئی‘‘ نے آکر لوگوں کے سامنے میری پٹائی کردی۔‘‘

…………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔