الیکشن قریب آ رہے ہیں۔ اس موقع پر مجھے وہ تمام الیکشن یاد آ رہے ہیں جن کا میں عملی طور پر حصہ رہا ہوں اور کئی دلچسپ واقعات کا مشاہدہ کرچکا ہوں۔ پاکستان کے سب سے پہلے عام انتخابات 1971ء میں ہوئے۔ میں اور میرے ساتھی سخرہ ہائی اسکول کے پولنگ اسٹیشن میں ڈیوٹی پر تھے۔ ہم ووٹنگ سے دو دِن پہلے وہاں پہنچ گئے اور پولنگ بوتھ وغیرہ تیار کیے۔ ہم اپنے ساتھ کھانے وغیرہ کا سامان ساتھ لائے تھے۔ مقامی لوگوں میں کسی نے بھی پوچھنے کی زحمت نہ کی کہ ہم کھانا کہاں سے کھائیں گے اور ہمیں بھی توقع نہیں تھی۔ ایک تو مقامی لوگ بہت غریب تھے اور ہمیں بھی سختی سے ہدایت کی گئی تھی کہ کسی بھی فریق کا یا عام شہریوں کا لایا ہوا کھانا مت کھانا۔ پولنگ کا دن آیا تو نیشنل عوامی پارٹی کے اُمیدوار افضل خان لالا تشریف لائے اور اسکول کے احاطے میں جمع لوگوں سے باتیں کرنے لگے۔ میں اُن کے قریب گیا اور اُن سے درخواست کی کہ آپ پولنگ اسٹیشن سے 500 گز کی حدود میں کنونسنگ نہیں کرسکتے۔ وہ فوراً بلا حجت مان گئے اور واپس چلے گئے۔ میں اُن کے قوانین کی پابندی سے بہت متاثر ہوا۔ حالاں کہ اگر وہ ضد کرتے، تو میں اُن کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا تھا بلکہ شاید میں ایسا کرنے کی جرأت بھی نہ کرتا باوجود اس کے کہ میرے پاس بہ حیثیت پریزائیڈنگ آفیسر کے جوڈیشل مجسٹریٹ کے اختیارات تھے۔ مگر وہ جہانزیب کالج میں چند ماہ کے لیے میرے پولیٹیکل سائنس کے لکچرار رہ چکے تھے بغیر تنخواہ کے۔ ووٹنگ شروع ہوئی، تو میں نے دیکھا کہ ایک پولنگ افسر لوگوں کو بیلٹ پیپر دیتے وقت اُن کو سمجھانے کے بہانے ان کو ایک مخصوص امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کی ترغیب دے رہا تھا۔ میں نے اُس کو فوری طور پر ہٹا دیا اور ایک اور آدمی کی ڈیوٹی لگا دی۔ میں نے اس کو سمجھا دیا کہ بھائی ہم سب کی اپنی اپنی سیاسی وابستگیاں ہیں مگر ہمارے موجودہ فرائض اس امر کے متقاضی ہیں کہ ہم غیر جانب دار رہیں۔ شام کے قریب جب گنتی جاری تھی، تو مرحومین محمد رسول خان صاحب اور محمد یعقوب خان صاحب دونوں بھائی میرے پاس آئے اور فرمایا کہ وہ درشخیلہ سے ہمارے لیے کھانا لائے ہیں۔ میں نے ازراہِ مذاق کہا کہ خان صاحب! آپ لوگوں کو تیسرے دن ہمارا خیال آیا۔ وہ کہنے لگے ہم سخرہ سے کتنے دور ہیں، تم جانتے ہو ہمیں تو کچھ معلوم ہی نہیں تھا۔ میں نے عرض کیا: ’’گنتی ختم ہو جائے، تو مل کر کھائیں گے۔‘‘ ویسے ہمیں یقین تھا کہ دارمئی خان کے گھرانے کی اپنی روایات ہیں جو اُن کے وارث زندہ رکھیں گے۔ گنتی ختم ہوئی، تو سب نے بلکہ اسکول کے احاطے میں موجود کئی لوگوں نے مل کر کھانا کھایا۔ وہ سیٹ خان لالہ جیت چکے تھے اور پھر مفتی محمود کے ساتھ مخلوط حکومت میں وزیر بن گئے تھے۔

افضل خان لالہ کی فائل فوٹو۔ (فوٹو: ازادي راډیو)

ایک اور الیکشن میں میری ڈیوٹی مینگورہ کے ہائی اسکول نمبر تین میں لگی تھی۔ بریکوٹ کے فضل احد خان ہمارے پریزائیڈنگ افسر تھے۔ پُرامن اور خوشگوار ماحول میں ووٹنگ جاری تھی۔ پیٹ پوجا کی فکر تو سب ہی مخلوق کرتی ہے، ہم نے نوے کلے میں اپنے ایک ٹھیکیدار دوست محمد اکرام کو پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ دوپہر کا کھانا اپنے گھر سے تیار کر وا کر نمبر تین اسکول شاہدرہ پہنچا دیں۔ مینگورہ کے شہری لوگ چوں کہ قانون سے آگاہی رکھتے تھے، اس لیے ووٹنگ کے عمل میں کوئی ناخوشگوار رکاؤٹ نہیں آرہی تھی۔ اچانک ایک ہلچل سی مچ گئی۔ کچھ لوگ ایک شخص کو چارپائی میں کندھوں پر اُٹھائے اسکول کے اندر آگئے۔ معلوم ہوا کہ موصوف ایک خاص پارٹی کے ووٹر ہیں اور گزشتہ روز ایک سیاسی مخالف کی گولی کا نشانہ بن گئے ہیں۔ گولی چلانے والے شاید اناڑی تھے کہ مجروح کو کوئی مہلک زخم نہیں آیا تھا۔ ہم نے ازراہِ ہمدردی اُس کو لائن میں کھڑے ہوئے بغیر ووٹ ڈالنے کا موقع فراہم کیا۔ اُس زخمی ووٹر کے ساتھ اُس کا بڑا بھائی بھی تھا۔ وہ بھی اپنا ووٹ پول کرچکا۔ پھر وہ لوگ اسکول کے صحن میں چارپائی کے ساتھ بیٹھ گئے۔ ہم نے اُن کو کہا کہ بھائی اب آپ ان کو لے جائیں بے چارہ زخمی ہے۔ اس کو کیوں تکلیف میں ڈال رکھا ہے؟ وہ کہنے لگے تھوڑا سا صبر کریں، ہم اس کو اٹھا کر لے جانے والے ہیں۔ بہت وقت گزر گیا بلکہ پولنگ کا وقت ختم ہونے والا تھا، میں نے اُن کو ذرا سختی سے کہا کہ دیکھیں کچھ دیر میں ہم گنتی شروع کرنے والے ہیں اور اس وقت پولنگ ایجنٹس کے علاوہ کسی کو بھی اسکول کی حدود میں ٹھہرنے کی اجازت نہیں ہے، مگر وہ لوگ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اتنے میں اُن کی پارٹی کے امیدوار تشریف لائے۔ یہ سب اُن کے گرد کھڑے ہوگئے اور اپنی کارکردگی بیان کرنے لگے۔ انھوں نے کمال مہربانی سے اُن کی کوششوں کو سراہا اور اُن کا شکریہ ادا کیا۔ پھر وہ امیدوار صاحب ہم سے مل کر واپس چلے گئے۔ جب اُن کی گاڑی ٹریفک کی بھیڑ میں گم ہوگئی، تو ہم یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ چارپائی پر لیٹا ہوا ووٹر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ کمر سیدھی کی اور پھر چارپائی سے اُتر کر سیدھا کھڑا ہوگیا۔ دو تین بار اپنے اکڑے ہوئے اعضا کو جھٹکے دے کر خود ہی چلنے لگا۔ ہمیں یہ ڈرامہ بازی دیکھ کر بہت دُکھ بھی ہوا اور حیرت بھی کہ لوگ خوشامد میں کس حد تک گر جاتے ہیں اور کیسے کیسے سوانگ رچاتے ہیں۔ وہ ایم این اے جو اس قسم کے وفا شعار ووٹروں کے بل پر منتخب ہوا تھا۔ شاید ہی پھر کبھی اس چارپائی والے ووٹر کو ملا ہو۔ وہ الیکشن میرا بحیثیت انتخابی عملہ کے رُکن کے شاید آخری الیکشن تھا۔ اس کے بعد کئی انتخابات آئے مگر میں نے اپنی ڈیوٹی نہ لگنے دی اور مختلف بہانوں سے اپنے آپ کو ان ہنگاموں سے دور رکھا۔ یہاں تک کہ میں 2003ء میں ریٹائر ہوکر گھر آگیا۔
موجودہ حالات میں تو اس قسم کی ڈیوٹی میں بہت مشکل مرحلے آتے ہیں۔ سیاست سے شرافت اُٹھ گئی اور نودولتیے اس میدان میں اُتر آئے ہیں جن کو اپنی عزت کا پاس ہے نہ دوسرو ں کی عزت کا۔ اب افضل خان لالا، مولوی صاحب بر تھانہ، پرنس اورنگزیب، محمد علی شاہ باچا لالا، عبدالرؤف خان آف ڈگر اور ان کے ہم عصر عزت دار لوگ نایاب ہوچکے ہیں یا عملی سیاست سے دور ہوگئے ہیں۔

………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔