ایریا سٹڈی سنٹر پشاور یونیورسٹی میں 25 اپریل 2018ء کو فاٹا اور پاک افغان سرحد کے موضوع پر ایک قومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس کا مقصد ایچی سن معاہدات کی روشنی میں فاٹا اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ پاک افغان بارڈر کے بارے میں غلط فہمیوں اور حقائق کا جائزہ لینا تھا۔ کانفرنس کے شرکا میں مختلف شعبہ جات کے ایم فل اور پی ایچ ڈی طلبہ کے علاوہ ماہرین، تجزیہ نگار، بیورو کریٹس، سینئر حکومتی عہدیدار، صحافی اور زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا مقصد یہ نکتہ تلاشنا تھا کہ فاٹا اور پاک افغان سرحد کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرکے لوگوں کو حقائق سے آگاہ کیا جائے اور ان حقائق کو مدنظر رکھ کر فاٹا اور ڈیورنڈ لائن سے متعلق تمام مسائل کا ایک سنجیدہ اور قابلِ عمل حل نکالاجائے۔ اس کے علاوہ اس کانفرنس کا یہ بھی مقصد تھا کہ سکالرز، اکیڈمیشینز، پالیسی میکرز اور عوام میں فاٹا کو قومی دہارے میں شامل کرنے، پاک افغان سرحد کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے اور تجزیہ نگاروں، ماہرین، صحافیوں اور سینئر حکومتی عہدیداروں کو ایسے ایشوز پر بحث و مباحثہ کے لیے مواقع فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ کیوں کہ یہ ایسے موضوعات ہیں جو نہ صرف علاقائی سیاست سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ بلا واسطہ یا بالواسطہ قومی امن و سلامتی، علاقائی اور بین الاقوامی سیاست پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔

کانفرنس کے شرکا کی باجماعت تصویر۔ (فوٹو: لکھاری)

اس کانفرنس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ قبائلی لوگوں کے ساتھ انگریزوں کے زمانے میں طے شدہ معاہدات (ایچی سن ٹریٹیز)سے سبق حاصل کرکے ان کو عصری چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے استعمال کیا جائے۔ علاوہ ازیں فاٹا کو قومی دہارے میں لانے کے مختلف پہلوؤں پر بحث و مباحثہ کرنا بھی کانفرنس کے مقاصد میں شامل تھا۔ افتتاحی نشست کے علاوہ یہ کانفرنس مزید دو اور نشستوں پر مشتمل تھی۔ افتتاحی نشست کا آغاز ایریا سٹڈی سنٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خان نے خطبۂ استقبالیہ اور کانفرنس کے اغراض و مقاصد سے کیا۔ اس کے بعد شہید بینظیر بھٹو ویمن یونیورسٹی پشاور کی وائس چانسلر ڈاکٹر رضیہ سلطانہ نے اپنا کلیدی خطبہ پیش کیا۔ آپ نے کانفرنس کے ایجنڈے کی تعریف کی اور کہا کہ بین الاقوامی تعلقات چند غلط فہمیوں اور خود ساختہ ادراکات میں گھرے ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان غلط فہمیوں میں صحیح ادراک کی تلاش ماہرین اور محققین کا کام ہے۔ انہوں نے دو طرفہ امن کے لیے بارڈر کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ یہ دشواری اس وقت پیش آتی ہے جب ریاستیں ماضی کے ورثہ سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرد جنگ کا ورثہ اب بھی دونوں ریاستوں کے پاس ہے۔ اس نے مزید کہا کہ دونوں ریاستوں کے لیے یہ موزوں وقت ہے کہ بارڈر مینجمنٹ کا کوئی سیاسی حل نکالیں۔
ڈاکٹر رضیہ سلطانہ کے کلیدی نِکات کے بعد پہلی نشست کی کارروائی شروع ہوئی۔ جناب رستم شاہ مہمند نے اس نشست کی صدارت کی۔ نشست کے مقالہ نگاران میں پروفیسر ڈاکٹر عظمت حیات خان، رحیم اللہ یوسف زئی، بریگیڈیئر سعد اور محترم جناب جمعہ خان صوفی صاحب تھے۔ ڈاکٹر عظمت حیات نے پاک افغان بارڈر کے متعلق غلط فہمیوں اور حقائق کے موضوع پر مقالہ سناتے ہوئے کہا کہ پاک افغان سرحد ایک تسلیم شدہ اورمستقل بین الاقوامی سرحد ہے۔ اس بارے میں آپ نے بہت سے تاریخی حوالے بھی پیش کیے۔ آپ نے کہا کہ ڈیورنڈ لائن کے بارے میں مدتِ تنسیخ کے حوالہ سے جو غلط فہمی ہے، بنیادی ماخذات میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ڈیورنڈ لائن کے بارے میں افغانستان کا مؤقف غیر منطقی ہے۔ کوئی بھی ریاست یک طرفہ طور پر کسی بھی معاہدے کو منسوخ نہیں کر سکتی ہے۔ آپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان کو چاہیے کہ بارڈر مینجمنٹ کے حوالے سے سخت پالیسی اختیار کرے۔
رحیم اللہ یوسفزئ نے فاٹا اصلاحات پر زور دیا۔ آپ نے کہا کہ پاکستان میں انتخابات کے سال ہونے کی وجہ سے فاٹا کی اصلاحات سست روی کا شکار ہوگئی ہیں اور نئی حکومت بننے تک یہ اسی طرح سرد خانے میں پڑی رہیں گی۔ اصلاحات شروع کرنے کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو جاتا ہے، لیکن وہ فاٹا کو ضم کرنے میں ناکام ہوئے۔ اگرچہ فاٹا پاکستان کے کل رقبے کے تین فیصد حصے پر مشتمل ہے اور اس کی کل آبادی ملکی آبادی کی ڈھائی فی صد ہے،جو سماجی اور اقتصادی حوالے سے کم ترین سطح پر ہے۔ علاوہ ازیں فاٹا کے دو ملین لوگ بے گھر ہیں، لیکن ان تمام عوامل کے باوجود فاٹا دفاعی اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ رحیم اللہ یوسفزئ کے خیال میں پشتون تحفظ مومنٹ کی شکل میں موجودہ ابھرنے والی تحریک کا اصل سبب بھی فاٹا اصلاحات میں سست روی ہے۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ فاٹا میں بلدیاتی نظام تب کامیاب ہوگا، جب اس کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔ فاٹا کے لوگوں کی شکایات دور کرنے کے لیے آپ نے دو اہم تجاویز بھی پیش کیں، وہ یہ کہ ہر خاندان کو سالانہ چارہزار روپیہ صحت کی بیمہ کاری کی مد میں دیا جائے اور اس کے بدلے اُن سے یہ کہا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو سکولوں میں داخل کریں اور ان کو ویکسین پلانے دیں۔ دوسری تجویز فاٹا کے تمام طلبہ کو وظائف دینے کے بارے میں تھی۔ آپ کے اندازے کے مطابق ان دونوں منصوبوں پر تین اعشاریہ دو بلین روپیہ خرچہ اٹھتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اس کے بارے میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا۔

بقول رحیم اللہ یوسف زئی: فاٹا کے دو ملین لوگ بے گھر ہیں۔ (Photo: The Pashtun Times)

رحیم اللہ یوسفزئ کے بعد بریگیڈئر سعد نے پاک افغان بارڈر مینجمنٹ کا اقتصادی اور سیاسی تناطر میں جائزہ لیا۔ آپ نے کہا کہ یہ ایک فطری بارڈر نہیں تھا۔ اس کا مقصد ایک سافٹ بارڈر لائن مقرر کرنا تھا، جس نے پشتون خاندانوں اور قبیلوں کو تقسیم کیا۔ آپ نے اُن ایشوز کا جائزہ لیا جو دونوں ریاستوں کے درمیان بارڈر مینجمنٹ کے حوالے سے سامنے آتے ہیں۔ آپ نے کہا کہ اسی بارڈر پر موجود تجارتی راستوں پر حکومت کی گرفت نہیں ہے۔ تجارتی پالیسی اور سیاسی مسائل بارڈر مینجمنٹ کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ قلیل المیعاد تجارتی پالیسی اور گیٹ بند کرنے سے مقامی لوگوں کو اذیت پہنچتی ہے۔ سفری کاغذات ہونے چاہئیں مگر ان میں آسانی پیدا کرنی چاہیے۔ بارڈر مینجمنٹ اور دو طرفہ تعلقات میں سرحد پار دہشت گردی بڑی رکاوٹ ہے۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی اور عسکری تعاون بہت ضروری ہے۔
اس کے بعدجناب جمعہ خان صوفی صاحب نے ڈیورنڈ لائن کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ اس لائن کو ہم ’’ڈیورنڈ امان لائن‘‘ یا ’’دادا اور نواسے کی لائن‘‘ کہیں۔ کیوں کہ یہ امیر کی مرضی اور درخواست پر 1893ء کو کھینچی گئی لائن ہے۔ امیر امان اللہ خان نے اس کو قانون کے مطابق کر کے ایک بین الاقوامی سرحد بنایا۔ جب سر مارٹیمر ڈیورنڈ 1873ء کے انگلو روس معاہدے کی توثیق کے لیے افغانستان چلے گئے، تو اس کے لیے ڈیورنڈ معاہدہ ثانوی حیثیت رکھتا تھا۔ اگرچہ امیر اس کو اولین درجے کی اہمیت دیتے تھے۔ آپ (جمعہ خان صوفی) نے ڈیورنڈ لائن کے معاملہ پر افغان مؤقف اور بے بنیاد اعتراضات کو بھی بیان کیا جو بنیادی طور پرموجودہ وقت میں پشتونوں کے اندرونی بیانیہ پر مشتمل ہیں۔ آپ نے اپنے مقالہ کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ڈیورنڈ لائن کی قانونی حیثیت جو کچھ بھی ہو، لیکن افغانستان کوئی قانونی جواز نہیں رکھتا اور پاکستان کے خلاف ذہنیت رکھنے والے دو طرفہ تعلقات کو خراب کرنے کے لیے اس قسم کا پروپیگنڈا جاری رکھیں گے۔ جمعہ خان صوفی نے اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کو معکوس منطق (ریورس لاجیک) اپنانے کی تجویز دے دی۔
اس طرح پہلی نشست کے مقالہ نگاروں سے سوال و جواب کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد چائے کا وقفہ ہوا اور پھر دوسری نشست ڈاکٹر فخر الاسلام، ڈائریکٹر پاکستان سٹڈی سنٹر کی صدارت میں شروع ہوئی۔ اس نشست میں جناب رستم شاہ مہمند، پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خان، ڈائریکٹر ایریا سٹڈی سنٹر پشاور یونیورسٹی، ڈاکٹر حسین شہید سہروردی اور راقم شامل تھے۔

بقول جمعہ خان صوفی: امیر امان اللہ خان نے ڈیورنڈ لائن کو قانون کے مطابق کرکے اسے ایک بین الاقوامی سرحد بنایا۔ (Photo: Jeo Urdu)

رستم شاہ مہمند نے فاٹا کے قبائل کے ساتھ برطانوی معاہدات کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ آپ نے دونوں ریاستوں کے درمیان تین قسم کی خام خیالی اور غلط فہمیوں کی نشان دہی کی۔ آپ نے ان غلط فہمیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ افغانستان میں امن سے پاکستان میں امن آئے گا۔ آپ نے کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ کیوں کہ اسی کی دہائی میں افغانستان جنگ کی لپیٹ میں تھا، مگر اس نے پاکستان کو متاثر نہیں کیا تھا اور یہاں امن و امان تھا۔ دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ پسماندگی کی وجہ سے دہشت گردی پیدا ہوتی ہے۔ آپ نے کہا کہ یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے، لیکن بنیادی وجہ ماضی کے پالیسی میکرز کے غلط اندازے اور غلط پالیسیاں تھی، جن کی وجہ سے ہمیں اس دہشت گردی میں دھکیل دیا گیا۔ تیسری خام خیالی فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی ہے۔ آپ نے کہا کہ اصلاحات ہونی چاہئیں، لیکن اس سے پہلے لوگوں کی دوبارہ آبادکاری بہت ضروری ہے۔ آپ نے اپنی بات کو اِن تجاویز پر ختم کیا کہ فاٹا کے عوام سے ملنا چاہیے اور ان کے گلے شکوے اور پریشانیاں دور کرنی چاہئیں۔
اس کے بعد ڈاکٹر شبیر احمد خان، ڈائریکٹر ایریا سٹڈی سنٹر پشاور یونیورسٹی نے برطانوی حکومت کے فاٹا کے قبائل کے ساتھ کیے گئے معاہدات سے لیے گئے سبق اور حالیہ حالات میں ان کے اطلاق کے حوالے سے اپنا مقالہ پیش کیا ۔ آپ نے کہا کہ قبائل کے ساتھ برطانوی معاہدات کی کامیابیاں اور ناکامیاں دونوں موجود ہیں، یعنی یہ برطانوی حکومت کے لیے تحفظ کی فراہمی کے حوالے سے تو کامیاب رہے، لیکن ساتھ ساتھ ان معاہدات نے قبائلیوں میں انگریزوں کے خلاف شکوک و شبہات اور تلخی بھی پیدا کی۔ یہ معاہدات انگریزوں کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں کہ کس طرح مقامی علاقے اور آبادی کو قابو میں رکھا جائے۔ ان معاہدات کی وجہ سے حکومتی گرفت کمزور ہوگئی اور عسکریت پسندی کو فروغ کے لیے ان علاقوں میں ایک موزوں فضا مل گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قبائلی علاقوں میں سماج مضبوط تھا لیکن ریاست کمزور تھی۔ ڈاکٹر شبیر نے فاٹا میں حکومتی عملداری کے لیے چند عوامل کی بھی نشان دہی کی۔ ان عوامل میں ریاست اور سماج کی قربت، طاقت کے استعمال میں احتیاط، مؤثر سرحدی بندوبست اور بیرونی مداخلت کا سد باب شامل تھے۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ بالواسطہ ایڈمنسٹریشن بھی طاقتور قبائلی سماج اور کمزور ریاست کے عوامل میں سے ایک ہے۔ آپ نے اپنے مقالہ کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ رسمی ریاستی اداروں کے قیام کے ذریعے فاٹا کو قومی دہارے میں شامل کیا جائے۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے ریاست قبائلی عوام کے قریب آجائے گی۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حالات کے تناظر میں وقتی اور جزوی معاہدات سے کام نہیں چلے گا۔ آپ نے مزید کہا کہ قبائلی علاقوں میں پرانا سماجی نظام جہاں معاہدات کی پاس داری ہوا کرتی تھی، اب عسکریت پسندی کی وجہ سے ناکام ہو چکا ہے اور اب ایک خلا پیدا ہو چکا ہے، جہاں سماجی کنٹرول کی نئی صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس قسم کے معاہدات اب بے معنی ہیں۔ حکومتی عملداری اور انتظامی خلا کو مثبت عملی اصلاحات سے پُر کرنا چاہیے۔ ورنہ سماج دشمن عناصر کو دوبارہ پنپنے کا موقع مل جائے گا ۔
اس کے بعد ڈاکٹر حسین شہید سہروردی نے فاٹا اصلاحات اور بارڈر مینجمنٹ کے حوالے سے مقالہ پیش کرتے ہوئے مؤثر بارڈر مینجمنٹ پر زور دیا۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ تمام علاقائی عوامل کو شامل کرکے امن لایا جاسکتا ہے۔
اس کانفرنس کا آخری مقالہ نگار ایریا سٹڈی سنٹر کا فیکلٹی ممبر ڈاکٹر محمد علی دیناخیل یعنی راقم خود تھا۔ مَیں نے پاک افغان بارڈر کے لسانی، ثقافتی اور ادبی مضمرات پر مبنی اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس بارڈر کی وجہ سے ایک ہی زبان بولنے والے لوگ دو حصوں میں بٹ چکے ہیں۔ لہٰذا پشتو زبان اور ادب پر اس کے اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔ اپنے مقالہ میں جو سب سے اہم بات کی طرف مَیں نے اشارہ کیا، وہ پشتو زبان کی املائی وحدت کا مسئلہ ہے۔ میں نے مزید کہا کہ پشتو زبان کئی لہجے رکھتی ہے۔ ان میں سے ہر لہجہ کی اپنی خصوصیات ہیں۔ ماہرینِ لسانیات نے لہجوں کی جوگروہ بندی کی ہے، اس میں دو گروپوں میں لہجوی تقسیم زیادہ مشہور ہے، جن میں دو مشہور لہجے سامنے آتے ہیں۔ ان کو قندہاری لہجہ اور پشاوری لہجہ کہتے ہیں۔ قندہاری لہجہ میں موجود آوازیں پشتو زبان کی موجودہ تحریری علامات سے قریبی موافقت رکھتی ہیں اور اسی بنا پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لہجہ دوسرے لہجوں پر فوقیت رکھتا ہے، مگر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موجود ادبی روایت اورقلمی نسخوں سے پتا چلتا ہے کہ پشاوری لہجے میں بھی یہ آوازیں موجود تھیں۔ کیوں کہ اس زمانے کے مخطوطات میں جو اُن ہی علاقوں میں مرتب ہو چکے ہیں، ان مخصوص آوازوں کے لیے علامات موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ بعد میں یہ آوازیں ان لہجوں نے کھوئی ہوں۔ جب آوازوں کے حوالے سے موازنہ کیا جائے، تو قندہاری لہجے میں کانسوننٹ آوازیں برقرار رہی ہیں اور اسی طرح پشاوری لہجے میں واول ساؤنڈز موجود ہیں، جن میں سے چند قندہاری لہجے میں اب نہیں ہیں۔ اس طرح اور بھی بہت سی خصوصیات ہیں جو ہر لہجہ میں موجود ہیں۔ معیاری اور ادبی لہجے اور املائی وحدت کا مسئلہ اب بھی حل طلب ہے۔ چوں کہ یہ زبان انتظامی لحاظ سے دو الگ الگ ملکوں میں بولی جاتی ہے، لہٰذا اب تک ادبی اور تحریری لہجے اور املائی وحدت پر اتفاق نہیں ہوا ہے۔ اس حوالے سے پشتو ٹولنہ کابل اور پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی نے 1943,48,58اور 1990ء میں کابل اور پشاور میں سیمینارز منعقد کیے ہیں اور ڈھیر ساری باتوں پر دونوں ممالک کے پشتو زبان و ادب کے سکالرز متفق بھی ہوئے ہیں، مگر املائی وحدت اور معیاری ادبی لہجے کے تعین کے حوالے سے اب بھی بہت سے اختلافات باقی ہیں، جن کو حل کر نے کے لیے دوبارہ پشاور اور کابل میں اس قسم کے علمی مباحث کو جاری رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
کانفرنس کے اختتام پر جو نِکات سامنے آئے، وہ درج ذیل ہیں۔
٭ برطانوی معاہدات نے اگرچہ سماجی کنٹرول میں مدد کیا لیکن عوامی شکوک و شبہات اور تلخی کو دور کرنے میں یہ ناکام ہوگئے بلکہ شکوک و شبہات اور عوامی تلخی میں اضافہ ہوا۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تمام حصہ داروں کو امن کے عمل میں شامل کرنا چاہیے۔ کالونی نظام کی طرح بالواسطہ انتظامی ڈھانچہ کا قیام غیر دانشمندانہ عمل ہے۔ کیونکہ انگریز اس علاقہ کے لوگوں اور رسم و رواج سے بے خبر تھے۔ انہوں نے اپنی آسانی کے لیے اسی طرح بالواسطہ انتظامی مشینری قائم کی۔
٭ فاٹا کے عوام بھی ان حقوق کے مستحق ہیں جو پاکستان کے دیگر علاقوں کے شہریوں کو ملتے ہیں۔
٭ داخلی اور خارجی محرکات تبدیل ہوچکے ہیں۔ لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ فاٹا کو قومی دہارے میں شامل کیا جائے اور پاک افغان سرحد کے لیے مؤثر انتظام کیا جائے۔

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔