سوات کو قدرت نے بلاشبہ فطری حسن کے ساتھ ساتھ تاریخ کے حوالہ سے بھی بڑی فیاضی کے ساتھ نوازا ہے، مگر جب فطری حسن اور تاریخ کا ایک مقام پر سنگم ہوتا ہے، تو بقولِ فرازؔ
"نشہ بڑھتا ہے، شرابیں جو شرابوں میں ملیں”
مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق ایسا ہی ایک مقام "املوک درہ سٹوپا” ہے، جہاں فطری حسن اور تاریخ بانہوں میں بانہیں ڈالے دعوتِ نظارہ دیتے ہیں۔ فطری حسن ایسا جو ہر خاص و عام کو انگشتِ بدنداں کر دے اور تاریخ ایسی کہ ’’رگِ تحریر‘‘ پھڑکا دے۔
ضلع سوات کی تحصیل بریکوٹ کے مقام پر ایک سڑک ضلع بونیر کی طرف مڑتی ہے۔ وہاں بائیں جانب ایک اور سڑک ایلم پہاڑ کی طرف مڑتی ہے جو پکی ہے اور اس پر ہر قسم کی گاڑی سٹوپا تک باآسانی رسائی دلاتی ہے۔ ایلم کے قدموں میں چاروں اُور سے لہلہاتے کھیتوں، پھلوں کے باغات اور چھوٹی بڑی پہاڑیوں میں بڑی شان سے کھڑا تیسری صدی عیسوی کا شاندار ’’املوک درہ سٹوپا‘‘ دور سے دکھائی دیتا ہے۔

املوک درہ سٹوپا پر پڑنے والی پہلی نظر، عقب میں عظیم پہاڑ ایلم بھی کھڑا ہے۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

علاقہ کے بڑے بوڑھوں کے بقول کسی زمانے میں املوک درہ میں بڑی مقدار میں "املوک” جسے اردو میں جاپانی پھل اور انگریزی میں "Japanies Fruit” کہتے ہیں، کے باغات ہوا کرتے تھے۔ اس لیے اس پورے درے کا نام مذکورہ پھل کی نسبت سے "املوک درہ” پڑ گیا۔ مرورِ ایام کے ساتھ شفتالو (آڑو) کی مانگ بڑھی اور رفتہ رفتہ املوک یہاں سے نایاب ہوتا گیا۔ آج اگر یہاں "املوک” کا اِکا دُکا درخت نظر بھی آئے، تو غنیمت ہوگی۔ آج "املوک درہ” گویا "شلتالو درہ” (شلتالو، پشتو زبان میں شفتالو یا آڑو کو کہتے ہیں) بن گیا ہے۔
اس طرح دیو قامت ایلم پہاڑ کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق رام چندر جی نے کوہِ ایلم کی چوٹی ’’جوگیانو سر‘‘ میں اپنی محبوب بیوی سیتا کے ساتھ پورے تین سال مراقبے میں گزارے ہیں۔ اس لیے شورش سے پہلے اس واقعے کی یاد میں ہر سال منعقد ہونے والے میلے کے لیے دور دراز کے علاقوں سے سکھ اور ہندو یاتری سوات بڑی تعداد میں آیا کرتے تھے۔
سطحِ سمندر سے ایلم کی بلندی 9200 فٹ ہے۔ اس کی چوٹی پر واقع "جوگیانو سر” (جوگیوں کی چوٹی) یا "Yougis’ Peak” وہ مقام ہے جہاں رام چندر جی اور سیتا میا نے بن باس لیا تھا اور پورے تین سال گزارے تھے۔

ایلم پہاڑ کی چوٹی "جوگیانو سر” جہاں رام چندر جی نے سیتا میا کے ساتھ بن باس لیا تھا۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

املوک درہ سٹوپا مکمل طور پر ایک سیاحتی مقام میں شان سے کھڑا ہے۔ سٹوپا کے ارد گرد لہلہاتے کھیت، کھیتوں میں خود رَو گلِ لالہ اور دیگر جنگلی پھولوں کا من بھاتا نظارہ، قبلہ رو دیوقامت پہاڑ ایلم سے نکلتی ہوئی میٹھے پانی کی بل کھاتی ندی اور روائتی گاؤں کا ماحول رہی سہی کسر پوری کر دیتا ہے۔ سٹوپا پر پہلی نظر پڑتی ہے، تو دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ "املوک درہ” میں داخل ہوتے وقت سٹوپا کی پشت پر نظر پڑتی ہے، تو اولین گمان یہی گزرتا ہے کہ سٹوپا محفوظ حالت میں موجود ہے، مگر جیسے ہی آدمی آہستہ آہستہ سامنے آتا ہے، تو اس کا کلیجہ کو منھ کو آجاتا ہے، کیوں کہ سامنے سے سمگلروں نے اسے بری طرح سے نقصان پہنچایا ہے۔

یہاں سے سٹوپا کی طرف کچا راستہ نکلتا ہے۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

سوات میں ایک عرصہ سے آثارِ قدیمہ پر کام کرنے والے فضلِ خالق اپنی کتاب The Uddiyana Kingdom: The forgotten holy land of Swat کے صفحہ نمبر 54 پر لکھتے ہیں کہ تیسری صدی عیسوی سے تعلق رکھنے والے بدھ مت دور کے اس عظیم سٹوپا کو پہلی دفعہ سال 1926ء میں سر اُورل سٹائن (Sir Aurel Stein) نے دریافت کیا تھا۔ اس کا بعد میں 1960ء کی دہائی میں اطالوی ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر فسینا (Dr. Faccena) نے مطالعہ کیا اور پھر اٹلی حکومت کی مدد سے آرکیالوجی کلچر ٹوورازم (اے سی ٹی) پراجیکٹ کے تحت سٹوپا کی سائنسی بنیادوں پر کھدائی کی۔ نتیجتاً سٹوپے کے متصل بدھ مت دور کا ایک کمپلیکس دریافت ہوا۔ اس کمپلیکس میں سیڑھیاں بڑی نفاست کے ساتھ نیچے اُترتی ہیں۔

سٹوپا کا ایریل ویو۔ (فوٹو: مہر علی شاہ)

اسی کتاب کے صفحہ نمبر 54 پر مصنف آگے رقم کرتے ہیں: "ڈاکٹر لوکا الیوری (Dr. Luca Olivieri) کے مطابق املوک درہ سٹوپا گندھارا کے علاقہ میں اچھی حالت میں موجود ہے۔ یہ سٹوپا تیسری صدی عیسوی سے گیارھویں صدی عیسوی تک کارآمد رہ چکا ہے۔ تاحال سوات میں نوے فیصد بدھ مت کے مقامات تاراج ہوچکے ہیں۔”
دوسری طرف سٹوپا کے احاطہ میں لگے بورڈ میں سٹوپا کو دوسری صدی عیسوی تا گیارھویں صدی عیسوی رقم کیا گیا ہے۔

سٹوپا کے احاطہ میں لگا بورڈ جس پر سٹوپا کے متعلق معلومات درج ہے۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

واضح رہے کہ ڈاکٹر لوکا ستمبر 1987ء سے آثارِ قدیمہ کے حوالہ سے کھدائیوں اور ان پر تحقیق کے حوالہ سے سرگرم ہیں۔ ان کی خدمات کے عوض صدرِ پاکستان ممنون حسین انہیں ستارۂ امتیاز سے بھی نواز چکے ہیں۔ ڈاکٹر لوکا نے سب سے پہلے یہ دعویٰ کیا تھا کہ قدیم ادھیانہ سلطنت "سوات” ہی تھا، جو وجریانہ بدھ ازم (Vajrayana Buddhism) کا منبع تھا۔ ڈاکٹر لوکا کو دورِ حاضر میں ادھیانہ (قدیم سوات) کے نمایاں اساتذہ میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

ڈاکٹر لوکا کی فائل فوٹو۔ (فوٹو: فضل خالق)

فضل خالق کے بقول ڈاکٹر لوکا دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’چینی زائر ’’ہیون سانگ‘‘ (جو ساتویں صدی عیسوی میں سوات کے علاقے سے گزر چکے ہیں) بھی املوک درہ سٹوپا کا دورہ کرچکے ہیں، مگر بدقسمتی سے ان کے لکھے گئے سفرنامے کا ترجمہ کما حقہ نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم اب پروفیسر ’’میکس ڈیگ‘‘(Max Deeg) مذکورہ سفرنامے کا ترجمہ کر رہے ہیں، جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔‘‘
……………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔