آج مجھے اچانک خیال آیا کہ اپنے لڑکپن کے زمانے کی ملبوسات کے بارے میں کچھ باتیں کروں اور چند خوش لباس و خوش جمال شخصیات کی یادیں تازہ کروں۔ اُس دور میں اعلیٰ طبقے کے لوگ عموماً جاپان سے آئے ہوئے کپڑے پسند کرتے تھے، جن میں سب سے مشہور اور مقبول برانڈ ’’سولہ ہزار لٹھا‘‘ اور ’’دو گھوڑا بوسکی‘‘ تھے۔ عام لوگ تو اس کے خریدنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ ’’دو گھوڑا بوسکی‘‘ سیریز میں سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا رنگ ’’کریم‘‘ یا ’’آف وائٹ‘‘ تھا۔
ہمارے ہائی سکول شگئی اور بعد ازاں ودودیہ ہائی سکول میں سب سے جامہ زیب لڑکے دو تھے۔ ایک وزیر مال صاحب کے صاحبزادے شیرافگن خان اور دوسرے عبدالرازق کمان افسر کے بیٹے حیدر علی خان تھے۔ آخرالذکر پہلی جماعت سے لے کر انٹرمیڈیٹ تک میرے ہم جماعت رہے۔ یہ دونوں عام طور پر ’’دو گھوڑا بوسکی‘‘ اور ’’سفید لٹھے‘‘ کی شلوار پہنا کرتے تھے۔

وزیر مال صاحب کے صاحبزادے شیرافگن خان جو عام طور پر کاکا کی عرفیت سے جانے جاتے ہیں۔

ویسے ان پر ہر رنگ کا کپڑا خوب جچتا تھا۔ اُن دِنوں مغربی لباس کا استعمال صرف بڑے ریاستی افسروں اور شاہی خاندان کے مرد حضرات تک محدود تھا۔ پھر ان کی دیکھا دیکھی اور حکمران کی پسند کا خیال رکھتے ہوئے مینگورہ کے صاحبِ ثروت اور تجارت سے وابستہ افراد نے بھی مغربی لباس پہننا شروع کیا۔ ان میں کامران سیٹھ سب سے نمایاں ہوا کرتے تھے۔

کامران خان المعروف کامران سیٹھ۔ 

ریاستی افسروں میں سب سے بڑھ کر خوش لباس شخصیت وزیر مال شیر محمد خان تھی۔ دوسرے نمبر پر عبدالحنان کمان افسر کی شخصیت تھی۔ وزیر مال صاحب سردیوں میں اکثر ڈبل بریسٹ کوٹ استعمال کرتے تھے۔ مینگورہ ہی کے امان اللہ خان مرحوم نہایت خوبصورت اور خوش لباس انسان تھے۔

امان اللہ خان مرحوم کی فائل فوٹو۔

جیسا میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ حکمران سوات کی شدید خواہش تھی کہ سواتی لوگ مہذب اور روشن فکر صورت میں دنیا کے سامنے پیش ہوں، تو عام خوانین اور صاحبِ استطاعت لوگ بھی صاف ستھرے نظر آتے تھے۔ ان حضرات میں منگلور کے ’’شام خان‘‘ پہناوے کے لحاظ سے منفرد نظر آتے تھے۔ اُن کا مخصوص لباس وہی کریم کلر کا ’’دو گھوڑا بوسکی‘‘ اور ’’سفید لٹھے‘‘ کی شلوار تھی۔ پاؤں میں ہمیشہ زری کے پنج دھار چپل ہوتے تھے۔ رقص و سرود کی محافل کے رسیا تھے اور اپنے مزاج کے لحاظ سے ایک لااُبالی اور نہایت سخی مزاج خان تھے۔ دیولئی کے منجور خان بھی مغربی لباس کے دلدادہ تھے۔ میں نے اپنے بچپن میں انہیں جب بھی سیدوشریف میں دیکھا، کوٹ پتلون ہی میں دیکھا۔ روایتی کلاہ لنگی کا استعمال میں نے بہت کم عمری میں دیکھا۔ سرکاری ملازمین ابتدا میں مشہدی کلاہ لنگی اوڑھ کر دفتر جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے شاید میری عمر چار پانچ سال رہی ہوگی کہ صبح جب میرے والد دفتر جانے کی تیاری کرتے، تو لکڑی کے ستون میں لگے چھوٹے سے آئینے میں دیکھ کر لنگی باندھتے تھے۔ اس کا کلف لگا شملہ اب بھی مجھے تصور میں نظر آرہا ہے۔
بعد میں جب قراقلی ٹوپی کا رواج بڑھ گیا اور والی صاحب کا بھی پسندیدہ ٹھہرا، تو میرے والد بھی دوسرے سرکاری عملے کی طرح قراقلی ٹوپی استعمال کرنے لگے بلکہ والئی سوات سے ملاقات کرنے والے ریاستی باشندے کے لیے بھی قراقلی سر پر رکھنا ضروری سمجھتے تھے۔ جب میں زندگی میں پہلی بار اٹھائیس جون 1961ء کو والی صاحب کے حضور میں ملازمت کے لیے پیش ہونے جا رہا تھا، تو راستے میں فوجی دفتر سے اپنے والد صاحب کی قراقلی ٹوپی لے کر چلا گیا۔ بعد میں والی صاحب نے ہمارے سٹیٹ پی ڈبلیو ڈی کے اہلکاروں کو ’’بیری کیپ‘‘ پہننے کی اجازت دے دی۔ فوجی افسران اگر یونیفارم میں نہ ہوتے، تو سوٹ کے ساتھ قراقلی سر پر سجا لیتے۔

قراقلی کی سواتی قسم، اسے ملک کے دیگر حصوں میں جناح کیپ بھی کہتے ہیں۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

ریاست کے آخری چند سالوں میں کھلے سر دفتر آنے اور حضور سے ملنے کی اجازت عام ہوئی۔
والئی سوات کی اپنی شخصیت بہت شان دار تھی جیسا کہ ایک حکمران کو ہونا چاہیے۔ ہم نے اُن کو مغربی لباس میں بھی دیکھا اور روایتی قمیص شلوار میں بھی مگر وہ جہاں بھی اور جس بھی لباس میں ہوتے، نمایاں نظر آتے۔ یہاں تک کہ فیلڈ مارشل ایوب خان بھی اُن کے سامنے نہیں جچتے تھے۔ حالاں کہ دنیا بھر کے حکمرانوں میں ایوب خان سب سے زیادہ وجیہہ شخصیت کے مالک تھے۔ اس وقت مجھے ایک اور شخص کی یاد آرہی ہے جس نے ہمیشہ روایتی پختون لباس اور جوتے پہن کر زندگی گزاری۔ میں نے جب بھی انہیں دیکھا، کلاہ لنگی، شلوار قمیص اور روایتی ’’پنڑے‘‘ یعنی تلہ دار جوتے پہنے دیکھا اور انہوں نے مرتے دم تک یہ طریقہ بر قرار رکھا۔
یہ تھے کوٹہ موسیٰ خیل کے ایک بڑے مشر اور معزز خان ’’بہروز خان‘‘ خدا بخشے بڑے وضع دار انسان اور قبائلی روایات کے رکھوالے تھے۔

…………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔