کلاس لیتے سمے طلبہ میں جان ڈالنے کی خاطر مَیں اکثر ایک حقیقی کہانی ان کے گوش گزار کرتا ہوں۔ اور شاید یہ کہانی سنہ 2013ء کے بعد میں ہر سال اپنے نئے شاگردوں کو ضرور سناتا ہوں۔ کیوں کہ اس کہانی میں جتنا دَم ہے وہ شاید دیگر ’’موٹی ویشنل‘‘ کہانیوں میں نہ ہو۔ اسے رقم کرنے سے پہلے دو باتیں عرض کرتا چلوں، پہلی یہ کہ مذکورہ کہانی مجھے محمد عظیم المعروف ’’جمو‘‘ (اباسین کارپٹس) نے سنائی تھی۔ دوسری بات، کہانی میں والد کا کردار کس کے متعلق ہے؟ اس کا جواب کہانی کے آخر میں دیا جائے گا۔ سرِ دست کہانی ملاحظہ ہو: ’’پڑھائی میں اُس کے صاحبزادے کا جی نہیں لگ رہا تھا۔ پرنسپل صاحب نے فون کرکے اُسے کالج بُلایا۔ اگلے روز وہ جیسے ہی کالج گیا اور پرنسپل صاحب سے ملا، تو اُسے پتا چلا کہ صاحبزادہ پڑھائی کی طرف بالکل دھیان نہیں دے رہا۔ اُس نے پرنسپل صاحب سے صاحبزادے کی اس روش کی وجہ پوچھی۔ پرنسپل صاحب نے بھی بغیر کسی رو رعایت کے اُسے کہا کہ آدمی پڑھتا اس لیے ہے کہ کل کو اُسے اچھی سی نوکری ملے، وہ اپنے لیے ایک چھوٹا سے گھر تعمیر کرے، ایک چھوٹی سی گاڑی ہو اُس کے پاس اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُس کی جیب میں تھوڑے سے پیسے ہوں۔ اب یہ تمام اشیا آپ کے صاحبزادے کے پاس پہلے سے موجود ہیں، اُسے کسی چیز کی کوئی کمی نہیں، تو اُس کو کیا پڑی ہے پڑھنے کی، کیا آپ نے اُسے کسی چیز کی کمی محسوس ہونے دی ہے؟ اس سوال نے اُسے ایک گہری سوچ میں مبتلا کر دیا اور جب اُس کے سامنے بھاپ اڑاتی چائے کی پیالی رکھ دی گئی، تو ہی اُسے سوچوں کی وادی سے واپس آنا پڑا۔ چائے کی چسکی لیتے ہوئے اُس نے پرنسپل صاحب کو کہا کہ میرا صاحبزادہ مجھ پر گیا ہے۔ میں بھی ناز و نعم میں پلا بڑھا تھا۔ میرا بھی جی پڑھائی میں بالکل نہیں لگتا تھا۔ والدِ بزرگوار نے کسی کے مشورہ پر مجھے پبلک سکول سنگوٹہ سے اٹھا کر گھر سے بہت دور ایک آرمی پبلک سکول میں داخل کرا دیا۔ گھر میں روپے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی، جس وقت کھانے کو جی چاہتاکھا لیتا، سیر کو جی چاہتا، تو گاڑی لے کر کہیں بھی نکل جاتا۔ مگر گھر سے دور، اپنوں سے دور ہر قدم پر مشکل کا سامنا کرنا پڑتا۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے، جب پہلے ’’ویک اینڈ‘‘ پر میرے روم میٹ بس کا انتظار کر رہے تھے اور مَیں نے اپنے لیے پوری ٹیکسی بُک کرلی۔ دوست میرا مذاق اُڑا کر کہہ رہے تھے کہ یہ نیا نیا آیا ہے، وقت کے ساتھ خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔ اور اگلے ہی ہفتے میں بھی ان کے ساتھ کھڑا ہوکر بس کا انتظار کرنے لگا۔ ایسے بھی کئی ویک اینڈ آئے جب ہمارے پاس بس کا کرایہ تک نہ ہوتا اور ہم شہر کی سیر کے لیے ریت یا بجری سے بھرے ٹرک یا ٹریکٹر ٹرالی کے پیچھے لٹک جاتے۔ ہاسٹل کی زندگی نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔ اپنے جوتے کیسے پالش کرنے ہیں، کپڑے کیسے استری کرنے ہیں، کیسے محدود پاکٹ منی میں زندگی گزارنی ہے، دوستوں کی خاطر تواضع کیسے کرنی ہے اور کیسے سیر سپاٹا کرنا ہے؟ سب کچھ سیکھ گیا۔ پرنسپل صاحب، اگر آپ کی اجازت ہو، تو مجھے بھی اپنے برخوردار کو گھر سے دور بورڈنگ اسکول بھیجنا چاہیے، تاکہ وہ اپنی جنگ خود لڑنا سیکھے۔ وہ بھی گھر کے ماحول سے دور ہوگا، اپنے جوتے خود پالش کرے گا، اپنے کپڑے خود استری کرے گا اور اس کے پاس محدود پاکٹ منی ہوگی، تو اس میں بھی احساسِ ذمہ داری جاگے گا۔ نتیجتاً وہ بھی ایک سلجھا ہوا انسان بن جائے گا۔‘‘
کہانی میں ذکر شدہ والد کوئی اور نہیں بلکہ مرحوم قاسم نجیب اللہ ہی ہیں۔ مرحوم میرے لیے اس حوالہ سے بھی قابلِ احترام ہیں کہ آپ سوات کے مسیحا مرحوم ڈاکٹر نجیب اللہ کے اکلوتے جگر گوشے تھے۔

ڈاکٹر نجیب اللہ کی ایک یادگار تصویر جس میں ریاستِ سوات کے آخری ولی عہد میانگل اورنگزیب بھی کھڑے ہیں۔ 

قاسم نجیب اللہ سے میری پہلی ملاقات خوشگوار ماحول میں نہیں ہوئی تھی۔ خپل کور فاؤنڈیشن میں ’’سوات روٹری کلب‘‘ کے ایک اہم اجلاس میں مرحوم کی کوئی بات موصوف فضل مولا زاہدؔ المعروف خان جی کی طبعِ نازک پر ناگوار گزری۔ خان جی نے بات مائنڈ کی جس پر مرحوم کی ہنسی چھوٹی۔ ہنستے ہنستے مرحوم کے پیٹ میں بل پڑگئے۔ دوسری طرف خان جی بھی پھٹ پڑے۔ وہ تو بھلا ہو روٹری کلب کے دیگر ممبرز کا جنہوں نے بروقت معاملہ رفع دفع کیا، ورنہ اگر معاملہ طول پکڑتا، تو نجانے کیا نتیجہ نکلتا۔ اُس روز مجھے مرحوم بُری طرح کھٹکے تھے اور تا دمِ آخر جب بھی میں انہیں دیکھتا، بادلِ نخواستہ منھ دوسری طرف پھیر لیتا۔ مَیں اُس وقت تک مرحوم سے منھ پھیرتا رہا، جب تک مجھے اُن کے بارے میں یہ پتا نہ چلا کہ وہ سوات کے مسیحا ڈاکٹر نجیب کے صاحبزادے ہیں اور یہ کہ وہ ایک بہت اچھی سماجی شخصیت بھی ہیں۔ پھر ایک روز جیسے ہی سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے باریش ہنستے چہرے والی تصویر کو دیکھا اور اس کے اوپر اُن کے گزرنے کی خبر پڑھی، تو دل بیٹھ سا گیا۔ یعنی وہ انسان گزر گیا جو فیاض ظفر کے بقول بہت رحم دل تھا۔ غریبوں کی حتی المقدور مدد کیا کرتا تھا۔ فیاض صاحب کے بقول مرحوم کے جتنے کرایہ دار تھے، ان میں سے کوئی ایک یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ مرحوم نے کبھی کرایہ کی رقم بڑھائی ہو۔ اس طرح ڈھونڈے سے بھی ایک شخص کوئی ایسا نہیں دکھا سکتا جسے مرحوم نے اپنی ملکیت (چاہے وہ کرایے کا مکان ہو یا پھر کوئی دکان) سے زبردستی نکالا ہو۔
مرحوم کے حوالہ سے محمد عظیم المعروف ’’جمو‘‘ کہتے ہیں کہ وہ میزان بینک کے زونل ہیڈ تھے۔ کینسر کی بیماری میں مبتلا تھے۔ آخری سانس تک خوب لڑے۔ آپ کی آخری باریش اور ہنستے چہرے والی تصویر دیکھ کر نجانے کیوں یہ شعر بے اختیار گنگنانے کو جی چاہتا ہے کہ
وہ ہنس پڑے، تو کئی درد ٹال دیتا ہے
کسی کسی کو خدا یہ کمال دیتا ہے

……………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروی نہیں۔