سوات ایکسپریس وے کے لیے بنائے جانے والے ٹنل کی پہاڑی اپنے اندر ایک تاریخ سموئے ہوئی ہے۔
آلہ ڈھنڈ ڈھیریٔ پہنچ کر اپنے دوست طارق باچا (جنہیں دس مضامین میں ماسٹر کرنے کا اعزاز حاصل ہے) کو ساتھ لے کر ٹنل کی طرف روانہ ہوئے۔ آلہ ڈھنڈ ڈھیریٔ سے ٹنل تک کا فاصلہ تقریباً تین کلومیٹر ہے۔ یہاں پر ٹنل بنانے والے کاریگروں کے لیے بیس ٹینٹ گھروں پر مشتمل کالونی بنائی گئی ہے جس میں مسجد، تین ہیلی پیڈ، وسیع کار پارکنگ، بھاری اور بڑی مشینری کے لیے ورکشاپس اور جنریٹر رومز شامل ہیں۔ ٹنل کے مشرق کی طرف ایک چھوٹا سا گاؤں’’ظلم کوٹ‘‘ واقع ہے۔ اس وجہ سے سوات ایکسپریس وے کے لیے بنائے جانے والے اس ٹنل کو ’’ظلم کوٹ ٹنل‘‘ بھی کہتے ہے۔

ظلم کوٹ ٹنل کی تعمیر کرنے والے کاریگروں کی کالونی کا ایک منظر۔ (فوٹو: لکھاری)

ظلم کوٹ کی وجۂ تسمیہ یہاں کے مقامی لوگوں کے مطابق یہ ہے کہ یہاں پر کسی زمانے میں ایک خوں ریز جنگ میں تقریباً چھ سو افراد کو بڑی بے دردی سے شہید کیا گیا تھا۔ ان شہدا کی قبریں اب بھی ظلم کوٹ گاؤں کے ایک بڑے قبرستان میں موجود ہیں۔
ظلم کوٹ پہاڑی پر اوپر جانے کے لیے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنایا ہے، جو پہاڑی کی دوسری جانب ’’شاہ کوٹ‘‘ نامی گاؤں سے لکڑیاں لانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
دوسرا راستہ ذرا چوڑا لیکن کافی دشوار گزار ہے،جو ظلم کوٹ پہاڑی کے اوپر ’’ہاتھی درہ‘‘ تک پہنچ کر ختم ہوتا ہے۔ ’’ہاتھی درہ‘‘ دراصل ظلم کوٹ پہاڑی کے اوپر ایک چوٹی کا نام ہے، جہاں پرانے زمانے میں ہاتھیوں کے ذریعے وہاں تک پہنچا جاتا تھا۔ اس وجہ سے اس راستہ کو ’’ہاتھیوں کا راستہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ہمارا ہدف ظلم کوٹ پہاڑی پر واقع ’’ہاتھی درہ‘‘ سے ہوکر ’’جائے عجب خان‘‘ تھا۔

ہاتھی تخت پر مقامی سیاح کھڑے ہیں۔ (فوٹو: لکھاری)

ہاتھی درہ تک ہاتھیوں کے آڑے ترچھے راستہ کے ذریعے تقریباً ایک گھنٹا کا فاصلہ ہے۔ راستے میں کئی چشمے موجود ہیں۔ جہاں سے مقامی لوگوں نے پائپ کے ذریعے پانی کی ترسیل اپنے گھروں تک ممکن بنائی ہے۔ تھکاوٹ کی صورت میں انہی چشموں کے ساتھ ٹھہر کر تھکن دور کی جاسکتی ہے۔
ظلم کوٹ پہاڑی مکمل طور پر ایک خاص قسم کے پودے سے بھری ہوئی ہے، جسے مقامی زبان میں ’’بنج‘‘ یا ’’کمبیلہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ پودا سال کے بارہ مہینے سرسبز و شاداب رہتا ہے۔ اس پہاڑی کے قدرتی حسن میں مذکورہ پودے کا خاص کمال ہے۔

سدا بہار پودا کمبیلہ جسے مقامی طور پر بنج کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

’’ہاتھی درہ‘‘ دو پہاڑوں کے بیچ میں واقع چوٹی ہے، جہاں پر ’’ہاتھی تخت‘‘ واقع ہے۔ یہ تین تہوں (Layers) پر مشتمل تخت ہے۔ پہلا تہہ جو کہ ہاتھی تخت کی بنیاد ہے، لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے دب چکا ہے، جس کے کچھ آثار اب بھی باقی ہیں۔ دوسرا تہہ، پہلے تہہ کے اوپر قائم کیا گیا ہے، جو پہلے تہہ سے قدرے چھوٹا اورنیم واضح ہے۔ آخری تہہ جو کہ ہاتھی درہ تخت کا سرا ہے، مکمل طور واضح ہے۔ البتہ کچھ جگہیں کھدائی کی وجہ سے منہدم ہوچکی ہیں۔ ہاتھی درہ تخت پر بڑے پیمانے پر کھدائی ہو چکی ہے، جس سے اس تخت کے حسن میں واضح کمی آئی ہے۔ اگر یہ تخت اپنی اصل صورت میں موجود ہوتا، تو یہ بلاشبہ سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں پیش پیش ہوتا۔
ہاتھی تخت تقریباً پچاس مربع فٹ رقبہ پر واقع ہے، جو کہ چوکور اور مستطیل نما، منقش پتھروں سے بنایا گیا ہے۔ ہر تہہ تقریباً دس فٹ اونچا بنایا گیا ہے۔ پتھروں پر مختلف نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس تخت پر کسی زمانے میں مہاراجہ بیٹھا ہوا کرتا تھا جو کہ ہاتھی پر سوار ہوکر یہاں آیا کرتا تھا۔
’’ہاتھی درہ تخت‘‘ ہموار چوٹی پر واقع ہے جو کہ پکنک منانے کے لیے مووزوں ترین جگہ ہے۔ جگہ جگہ پر الاؤ جلنے سے پتا چلتا ہے کہ لوگ پکنک منانے یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔
’’ہاتھی درہ تخت‘‘ سے مشرق کی طرف ایک دوسری چوٹی نظر آتی ہے، وہاں تک جانے کے لیے ایک چھوٹا سا راستہ موجود ہے۔
دوسری چوٹی تک تقریباً ایک گھنٹا کا فاصلہ ہے۔ اس چوٹی میں ایک چشمہ کے ساتھ دو کھجور کے درخت ہیں۔ یہ جگہ ’’زائے عجب خان‘‘ یا ’’جائے عجب خان‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس جگہ کے بارے میں مشہور ہے کہ عجب خان نے جب ایک انگریز خاتون کو اغوا کیا تھا، جس سے وہ پیارکرتا تھا، تو ان دونوں نے تین دن یہاں پرقیام کیا تھا۔ اس چوٹی سے اتر کر ظلم کوٹ قبرستان تک راستہ ہے، جہاں پر شہدا کی قبریں موجود ہیں۔ تقریباً چار گھنٹوں پر مشتمل یہ ٹریکنگ ٹریل اپنی نوعیت کی منفرد ٹریل ہے جس میں قدرتی حسن، تاریخ اور مہم جوئی تینوں شامل ہیں۔

ہاتھی تخت سے نیچے ظلم کوٹ کا علاقہ دور دور تک نظر آتا ہے۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

’’ظلم کوٹ ٹنل‘‘ بننے سے اس جگہ پر جانا مشکل ہوجائے گا۔ کیوں کہ ٹنل اور سوات ایکسپریس وے کی سیکورٹی کی وجہ سے یہاں تک آنا مشکل ہوجائے گا۔
میرے ساتھ اس سفر میں ہمارے گائیڈ طارق باچا سمیت نور حمید خان اور عثمان احمد شامل تھے۔ طارق باچا کی مہمان نوازی کے بعد تھکن سے چور اور دلوں میں خوبصورت یادیں سموئے واپسی ہوئی۔

…………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔