مینگورہ شہر کے حاجی بابا چوک اور نشاط چوک کے درمیان چھوٹا سا ایک چوک اور بھی ہے جسے مین بازار چوک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی چوک میں بچپن سے حلوائی کی ایک چھوٹی سی دکان دیکھتا چلا آرہا ہوں، جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ یہ اپنے دامن میں ایک عہد کی تاریخ سموئے ہوئی ہے۔ کون جانتا ہے کہ جب ملکہ الزبتھ سوات کے دورہ پر آئی تھی، تو اس کے لئے مٹھائی اسی چھوٹی سی دکان کے حلوائی نے تیار کی تھی؟ کون جانتا ہے کہ یہ چھوٹی سی دکان ریاستی دور میں نہ صرف شاہی خاندان کا چھوٹی بڑی تقاریب میں منھ میٹھا کیا کرتی تھی بلکہ شاہی مہمانوں کی خاطر مدارت میں بھی اس دکان کا بڑا حصہ ہے۔
آج کی نشست میں ملتے ہیں چھپن سالہ سیف اللہ سے جو فالج کے اٹیک کے بعد بمشکل بول سکتے ہیں۔ وہ آج بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر سواتی مٹھائی ان سے کسی نے بہتر طریقہ سے تیار کی، تو وہ علاقہ چھوڑ دیں گے۔

سیف اللہ کی فائل فوٹو (فوٹو: احسان علی خان)

سیف اللہ اپنی یادوں کی پوٹلی کھولتے ہوئے کہتے کہ ’’سنہ 1944ء میں میرے والد رحمت اللہ نے مردان کے نمبر ایک سکول سے میٹرک کا سرٹیفکیٹ لیا۔ بعد میں رستم خیل میں انہوں نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی اور آخرِ کار پاک آرمی میں بھرتی ہوگئے۔‘‘
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میرے والد نے مجھے بتایا تھا کہ ’’خان لیاقت علی خان نے فوجیوں کی تنخواہوں کی مد میں فنڈز کم ہونے کی بات کی، جس کی وجہ سے انہیں فوج کی ڈیوٹی چھوڑنا پڑی اور مجبوراً سوات واپس آئے۔ یہاں آتے ہی میاں گل عبدالودود المعروف بادشاہ صاحب کی خدمت میں پیش ہوئے اور انہیں کہا کہ ’’صیبہ زہ زوڑ سواتے یم‘‘ (یعنی میں پرانا سواتی ہوں)۔ بادشاہ صاحب نے ان سے جواباً پوچھا کہ اس دعوے کا کوئی ثبوت ہے آپ کے پاس؟ اُسی وقت میرے والد ایک بھی لمحہ ضائع کئے بغیر واپس گئے اور ایک تحریری ثبوت لے کر ایک بار پھر بادشاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بادشاہ صاحب نے میرے والد کے سر پر دستِ شفقت پھیرتے ہوئے کہا کہ تمہیں مع اہل و عیال واپس آنے کی اجازت ہے۔ یوں میرے والد صاحب واپس سوات آئے اور یہاں حلوائی کی ایک چھوٹی سی دکان کھولی۔ یہ دکان ملک سیف اللہ خان کی جائیداد تھی، جو کہ ملک بیرم خان ’’تاتا‘‘ کے ماموں تھے۔ بعد میں میرے والد نے یہ دکان ان سے قیمتاً خرید لی۔ روزِ اول سے یہ دکان اسی جگہ قائم ہے۔‘‘ (دکان آج بھی مین بازار چوک مینگورہ میں قائم ہے، راقم)۔
سیف اللہ کے والد کے حوالہ سے میں نے اپنے ایک دوست سے سنا تھا کہ وہ کشمیر سے آئے تھے، مگر اپنے والد کے حوالہ سے سیف اللہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ’’میرے والد سوات کے رہنے والے تھے۔ آٹھویں تک تعلیم انہوں نے سوات ہی میں حاصل کی تھی۔ بعد میں میرے دادا انہیں اپنے ساتھ مردان لے گئے تھے اور وہاں پلے بڑے تھے۔‘‘
سواتی مٹھائی کے حوالے سے بڑے دلچسپ انداز میں سیف اللہ کا کہنا تھا کہ ’’یوں تو سواتی مٹھائی میرے والد ایک عرصہ سے سوات میں تیار کرتے چلے آ رہے تھے، مگر جب ملکہ الزبتھ سوات آئیں اور ان کے لئے بطورِ خاص اسے پیش کیا گیا، تو اہلِ سوات میں اس کی دھوم اُڑ گئی۔ ملکہ الزبتھ کے دورۂ سوات کے موقعہ پر اُن کے لئے انواع و اقسام کے کھانے تیار کرنے والوں میں میرے والد بھی شامل تھے۔ ریاستی دور میں وہ خانساماں بھی رہ چکے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ’’کوکنگ‘‘ یا انواع و اقسام کے کھانے تیار کرنا اُن کا محبوب مشغلہ تھا۔ جنرل ایوب خان نے ملکہ الزبتھ کے لئے تیار ہونے والے کھانوں کی تعریف کی اور بطور خاص سواتی مٹھائی کو پسند فرمایا۔‘‘

سواتی مٹھائی۔ (فوٹو: احسان علی خان)

سواتی مٹھائی کے حوالے سے سیف اللہ مزید کہتے ہیں کہ اس کی یہی ایک مخصوص قسم اور شکل ہے، جس کا رنگ گہرا سنہرا اور شکل لمبی ہوتی ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی چوڑائی ایک انچ اور لمبائی تین ساڑھے تین انچ ہوتی ہے۔ عید میں علاقائی طور پر اس کی بڑی مانگ ہوتی ہے۔
ریاستی دور اور آج کل کی مٹھائی میں تھوڑا سا فرق ہے۔ ریاستی دور میں تیار ہونے والی مٹھائی اصلی دیسی گھی میں تیار ہوتی تھی۔ اس حوالہ سے سیف اللہ کہتے ہیں کہ ’’میرے والد اپنے وقتوں میں مٹھائی کو اصلی دیسی گھی اور دیسی دودھ میں تیار کرتے تھے۔ اس کے ساتھ مٹھائی میں وہ کسی مضر صحت کیمیکل کا استعمال بالکل نہیں کیا کرتے تھے۔ ریاستی دور میں پروگراموں کے لئے زیادہ تر مٹھائی میرے والد خود اپنے ہاتھوں سے تیار کرتے تھے۔ اس کے علاوہ شاہی خاندان کے سپوتوں عدنان باچہ، اسفندیار باچہ اور شہریار باچہ کی شادی کے موقع پر بھی مٹھائی ہمارے ہاں سے تیار ہوکر گئی ہے۔ اس کے علاوہ سابق صدر پاکستان جنرل ایوب خان کے صاحبزادے اور میاں گل اورنگزیب (ولی عہد صاحب) کے برادرِ نسبتی گوہر ایوب، غلام اسحاق خان اور سلیم سیف اللہ خان کے ہاں خصوصی مٹھائی تیار کرکے وقتاً فوقتاً یہاں سے بھیجی جاچکی ہے۔‘‘
مٹھائی کا فارمولہ کہاں سے حاصل کیا گیا؟ اس سوال کے جواب میں سیف اللہ اپنی یادداشت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میرے والد نے امرتسر (ہندوستان) میں ایک سکھ حلوائی کی شاگردی اختیار کی تھی، جس کا نام ابھی مجھے یاد نہیں۔ ہاں، میرے والد اکثر کہا کرتے تھے کہ اُس دور میں مذکورہ سکھ حلوائی کا توتی بولتا تھا۔ میرے والد کے بقول انہوں نے اُن کی شاگردی میں کئی فارمولے سیکھے۔ بعد میں جب انہوں نے سوات میں دکان کھولی، تو یہاں دو متین فارمولوں کو یکجا کرکے ایک نئی قسم کی مٹھائی بنانے میں کامیاب ہوئے جسے بعد میں باہمی مشاورت سے "سواتی مٹھائی” کا نام دیا گیا۔‘‘
بدقسمتی سے مختلف بیماریوں اور بالآخر فالج کے حملہ نے سیف اللہ کی یادداشت پر کافی اثر ڈالا ہے جس کی وجہ سے سے انہیں سنہ کا کچھ پتا نہیں، البتہ کہتے ہیں کہ والد بزرگوار یہی کوئی بیس پچیس سال کی عمر میں امرتسر گئے ہوں گے۔
میرے ساتھ نشست میں سیف اللہ کافی پُرجوش تھے۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ کوئی اور خاص واقعہ جو آپ کو اپنے والد یا اپنی ذات کے حوالہ سے یاد ہو، تو تھوڑی دیر سوچنے کے بعد کہنے لگے کہ ایک بار مجھے ’’رنگ ورم‘‘ (میرے ناقص علم کے مطابق ’’رنگ ورم‘‘ کے لئے اردو میں موزوں ترین لفظ ’’داد‘‘ اور پشتو میں ’’سپونڑے‘‘ ہے، راقم) کی شکایت ہوئی تھی، جس نے میری ناک کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ جب تکلیف زیادہ ہوئی، تو کسی نے میرے والد کو مشورہ دیا کہ سیف اللہ کو بادشاہ صاحب کے پاس دَم کی غرض سے لے جایا جائے، اِن شاء اللہ اِفاقہ ہوجائے گا۔ جب میرے والد مجھے بادشاہ صاحب کے پاس لے گئے، تو انہوں نے مجھے اپنی گود میں لیا۔ ان کے سامنے رحل میں قرآن شریف کھلا پڑا تھا۔ بادشاہ صاحب نے مجھے گال پر بوسہ دیا اور اس کے بعد زیرِ لب کچھ پڑھ کر دَم کرنے لگے۔ میرے والد کے بقول دَم کے دوران میں، مَیں ان کی داڑھی کے ساتھ کھیلتا رہا۔ دَم کا عمل ختم ہونے کے بعد بادشاہ صاحب نے میرے والد سے کہا کہ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ بس سیف اللہ کو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔‘‘
فیاض ظفر صاحب کے بقول ’’آج بھی اگر کوئی شاہی خاندان کے حجرہ پر حاضری دیتا ہے، تو دیگر خوراکی چیزوں کے ساتھ سیف اللہ کے ہاتھوں کی تیار کی ہوئی مٹھائی سے اس کی تواضع ضرور کی جاتی ہے۔ اور عیدین پر صرف مذکورہ مٹھائی اور تگڑی چائے کا دور چلتا ہے۔‘‘

………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔