سب سے پہلے ریاست کے اہم ترین شعبے یعنی "مسلح افواج” کا ذکر کریں گے۔
ریاست کے ابتدائی ایام میں فوج کا ایک سپہ سالار ہوا کرتا تھا جن کا نام احمد علی تھا۔ وہ وزیراعظم حضرت علی کا چھوٹا بھائی تھا۔ جب ریاست کو استحکام حاصل ہوا اور احمد علی کو اُن کی خدمات کے صلے میں وزیر کا درجہ دیا گیا، تو وہ ’’کشر وزیر‘‘ کہلانے لگے۔ کچھ عرصہ وہ وزارت کے ساتھ فوج کے بھی نگران رہے، اور جب ولی عہد ’’جہاں زیب خان‘‘ کو فوج کی کمان دی گئی اور ساتھ ہی عدالتی اختیارات بھی، تو فوج کے لیے ایک کل وقتی سپہ سالار کی تقرری عمل میں لائی گئی۔ اسی سلسلے کے پہلے سپہ سالار سید شہزاد گل تھے، جو اپنے بعد آنے والے سپہ سالار سید بادشاہ گل کے والد تھے۔ سپہ سالار سید بادشاہ گل کے ریٹائرمنٹ پر والی صاحب نے سپہ سالار کا عہدہ ہی ختم کیا اور اُن کے بیٹے جہاں زیب پاچا (جہان آباد) نائب سالار مقرر کئے گئے۔ اس کے بعد نائب سالار ہی فوج کے اعلیٰ ترین افسر ہوتے تھے۔ جو مشہور افسر اس عہدے پر رہے ہیں، اُن میں فقیر نائب سالار، امیر چمن خان نائب سالار، جہان زیب پاچا نائب سالار، عمرا خان نائب سالار آف پنجیگرام، عمرا خان نائب سالار آف کوکاریٔ اور آخری نائب سالار سید جہان خان آف شاہ پور رہے ہیں۔

ریاستِ سوات کی آرمی کا مارچ (Photo: valley swat)

یہ بات یاد رکھیں کہ سوات کی فوج میں کوئی جرنیل نہیں تھا۔ درج ذیل جدول سے فوج کے رینکس ظاہر کئے گئے ہیں۔
سپہ سالار، نائب سالار، کماندار (بعد میں کمانڈر)، کمان افسر (بعد میں کپتان)، صوبیدار میجر، صوبیدار، جمعدار، حوالدار، سپاہی۔
فوج کی تعداد انتہائی عروج کے دنوں میں دس ہزار تک پہنچ گئی تھی جو بعد میں حالات کی تبدیلی کے ساتھ کم ہوتی گئی۔ اس کے علاوہ نیم مسلح وہ افراد بھی جو روزمرہ کی بنیاد پر سڑکوں کی دیکھ بھال پر مامور تھے، ان کی تعداد کوئی چار ہزار کے قریب تھی۔ ان کا سربراہ ’’کمانڈر روڈز‘‘ کہلاتا تھا۔ ان کے ماتحت ایک کپتان، دو صوبیدار میجر اور دیگر رینکس کے لوگ تھے۔ ان کو بھی فوج کی طرح غلے کی صورت میں ادائیگی کی جاتی تھی۔ صرف افسروں کو نقد تنخواہ ملتی تھی۔ پولیس کا بھی ایک انچارج کمانڈر پولیس ہوا کرتا تھا۔ اُن کے ماتحت کئی انسپکٹر اور تھانیدار ہوا کرتے تھے۔
پولیس، ریاست کے طول و عرض، قلعوں اور پوسٹوں میں مستقل طور پر رہائش رکھتی تھی۔ قلعوں کے انچارج صوبیدار ہوتے تھے اور فوج سے آتے تھے۔ ان درج شدہ عہدوں کے علاوہ ریاستِ سوات کی فوج میں اور کوئی رینکس نہیں تھے۔

ریاست سوات کے قلعے

چلتے چلتے ایک بات واضح کرتا چلوں کہ والی صاحب کے دور میں صوبیدار میجر اور ان سے اوپر کے تمام رینکس کو جنس کی بجائے نقد تنخواہ دی جاتی تھی۔ یہ وضاحت ضروری تھی، لہٰذا گوش گزار کر دی۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔