عرصے سے میرے دل میں یہ خواہش پل رہی تھی کہ میں موصوف کے بارے میں کچھ باتیں ان کے چاہنے والوں کے ساتھ شریک کروں۔ کئی دفعہ اس کو شروع بھی کیا، مگر اس بھاری پتھر کو چوم کر واپس رکھ دیا۔ کیوں کہ یہ موضوع اتنا ہی مشکل اور پیچیدہ ہے جتنی پاچا لالہ کی شخصیت ہے۔ میں اُن کی برائیوں کا ذکر نہیں کروں گا، کیوں کہ میری اپنی برائیوں کا تناسب کوزے اور چھلنی والے مثل کے مصداق ہے۔ بس اُن کی سحر انگیز شخصیت سے وابستہ کچھ یادیں تازہ کروں گا۔
ہماری اُن سے جان پہچان صرف افسر آباد میں رہائش تک محدود نہیں تھی، بلکہ وہ ایک طرح سے ہمارے ’’گرائیں‘‘ بھی ہیں۔ کیوں کہ ہمارے گاؤں ابوہا میں اُن کی وسیع و عریض جائیداد تھی۔ زمین کی ملکیت کا اندازہ آپ اس امر سے لگائیں کہ اس جائیداد سے وابستہ اُن کا پورا محلہ، مسجد اور بانڈہ جات پورے گاؤں کے بارہویں حصے پر مشتمل تھے اور جیسا کہ عام طور پر غیر حاضر مالک یا "Absent Land Lord” کے ساتھ ہوتا ہے، ان کی زمینوں پر کئی خاندان پل رہے تھے۔ اس جائیداد کا کیا ہوا؟ یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔
پاچا لالہ شہیدِ کشمیر فقیر خان نائب سالار افواجِ ریاست سوات کے تیسرے بیٹے ہیں۔ چوتھا اور سب سے چھوٹا بیٹا مرحوم ابرار حسین تھا، جن کے بیٹے ماسم خان اس وقت ایس این جی ایل سوات ریجن میں اعلیٰ پوسٹ پر ہیں۔

ماسم ابرار خان کی حالیہ ترقی کے بعد روزنامہ آزادی میں چھپنے والی تصویر (فوٹو: روزنامہ آزادی)

ان کے دو بڑے بھائی احمد حسین اور اقبال حسین وفات پاچکے ہیں۔ افسر آباد میں ہمارے گھر سے چوتھا گھر اُن کا تھا۔ نائب سالار صاحب کی شہادت کے بعد بھی ان کی فیملی تقریباً بارہ سال تک اسی سرکاری حویلی میں مقیم رہی۔ میں اپنی اور ان کی عمر کا موازنہ بھی نہیں کروں گا۔ میں جب پہلی بار میں اُن کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوکر اُن کی مریدی میں آیا، تو میں جہانزیب کالج میں فرسٹ ائیر میں داخلہ لے چکا تھا۔  اُن کے بڑے بھائی احمد حسین پاک پی ڈبلیو میں اوورسیز تھے اور زیادہ تر سوات سے باہر رہتے تھے۔ سال میں ایک آدھ بار ہی گھر آتے تھے۔ انہوں نے بھوگڑ منگ کے ایک معزز خاندان میں شادی کی تھی۔ ان کی بیگم کو ہم سب بھابھی کہتے تھے۔ بہت بارعب خاتون تھیں۔ ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی۔ بیٹا شائد امریکہ میں رہتا ہو۔ بیٹی کی شادی عبدالحنان کپتان صاحب کے فرزند ڈاکٹر اختر حسین سے ہوئی تھی جو امریکہ میں کئی سال سے مقیم ہیں۔ دوسرے بھائی اقبال حسین تھے جن سے سوات اور خصوصاً مینگورہ کے لوگ واقف ہیں۔
پاچا لالہ نہایت کھلے دل کے مالک تھے۔ دل، حجرہ اور ہاتھ سب کھلا رکھتے تھے۔ افسر آباد کے کئی غریب لڑکے اُن کے حجرے میں پڑے رہتے۔ کھانا وافر اور بن مانگے ملتا تھا۔ اسی لئے عام طور پر یہ کہا جاتا تھا کہ جس نے ایک دفعہ پاچا لالہ کے حجرے میں قدم رکھا۔ بس ہمیشہ کے لیے وہیں کا ہوگیا۔ ہم بھی اس کے در کے ملنگ بن گئے۔ نجانے کیا بات تھی کہ جب ہم ان کے کمرے میں قدم رکھتے، تو دنیا کے دُکھ درد اور محرومیاں باہر چھوڑ آتے۔ پاچا لالہ کا انداز بھی سب کے لیے یکساں توجہ اور ہمدردی کا ہوتا تھا۔ ہر ایک یہی سمجھتا تھا کہ وہ اس کے دوست ہیں۔ بڑے بھائی ہیں اور اُستاد ہیں۔ وہ ریاضی کے جادوگر تھے۔ مشکل سے مشکل سوال لمحوں میں حل کرنا اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اسی خوبی کی وجہ سے ہی سے انہوں نے ریاضی میں ایم ایس سی کیا اور کئی کالجوں میں ہزاروں طالب علموں کو پڑھایا۔ علم کے پیاسے اُن سے گھر پر بھی پڑھنے آتے تھے اور وہ بھی مفت میں۔ ٹیوشن کے نام پر پیسے لینا اُن کی شان کے خلاف بات تھی۔ یہ بھی ایک دلچسپ امر ہے کہ انہوں نے کئی سال کالج سے باہر رہ کر کسی طرح اچانک کمر ہمت کس لی اور ایف ایس سی میں دوبارہ داخلہ لے لیا اور ایم ایس سی کرکے ہی دم لیا۔ یہ سب اچانک اور غیر متوقع نہیں تھا بلکہ ان کے بڑے بھائی احمد حسین کی ترغیب اور ہمت افزائی سے انہوں نے یہ مہم سر کی۔ ان کے تمام ناقدین منھ دیکھتے رہ گئے اور وہ ایک کامیاب و باعزت مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور ہزاروں شاگردوں کی محبت سمیٹ کر ریٹائرڈ ہوگئے۔
اُن کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ کچھ عرصہ پہلے جب کچھ سماج دشمن عناصر نے ان کو اغوا کیا تھا، تو پورے سوات میں عموماً اور مینگورہ میں خصوصاً غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور اُن کی بازیابی کے لیے عوامی سطح پر مہم چلائی گئی تھی۔
آج کل پروفیسر الطاف حسین عرف پاچال الہ کہاں مقیم ہیں؟ مجھے معلوم نہیں۔ غالباً تین سال پہلے مجھے مشہور ادیب اور دانشور فضل محمود روخان صاحب نے بتایا تھا کہ پاچا لالہ راولپنڈی میں اپنے بیٹے کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ فیس بک پر حال ہی میں حبیب الرحمان نے بتایا کہ وہ اور اختر علی حال ہی میں پاچا لالہ سے مل چکے ہیں۔ انجینئر اختر علی کے بارے میں عرض ہے کہ وہ سیف الملوک صدیقی (مرحوم) کے صاحب زادے ہیں اور پاچا لالہ کے بہنوئی ہیں۔
بہر حال وہ جہاں بھی ہوں، خوش رہیں۔ اُن کی زندگی ان تمام لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے جو کم ہمتی سے دل ہار کر ناکامی کے اندھیرے میں گم ہوگئے ہیں۔ یہی ایک مصرعہ ان کی زندگی کا حاصل ہے کہ:
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا

………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔