ادب، جغرافیہ اور سیاسی و سماجی تاریخ کا مطالعہ کرنا ابتدا ہی سے میرا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔ اس لیے میرا قلم چارو ناچار مذکورہ موضوعات اور اُن سے متعلق شخصیات پر ہی اُٹھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے کالموں کے بعض قاری میری توجہ اہم لوگوں پر لکھنے کی طرف راغب کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا موجودہ عنوان کی بابت بخت زادہ بابو صاحب نے مجھے تشویق کیا تھا۔ میں ایک عر صہ سے اس پر لکھنے کا خواہاں تھا لیکن موضوع کے بارے میں میری جا ن کاری بہت کم تھی۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے میں نے فضل قوی حاجی صاحب، محمد طاہر اُستاد صاحب، ایڈووکیٹ قجیر خان صاحب اور معروف تاریخ دان وکیل خیرالحکیم حکیم زئی سے مدد لی۔ ساتھ ہی عتیق الرحمان سے متعلقہ شخصیت کا وہ نایاب تاریخی نسخہ بھی برآمد ہو ا جس میں درشخیلہ سے متعلق 1904ء سے لے کر 1940ء تک کے مختلف معلومات درج ہیں۔مذکورہ پارسی زبان کی کتاب بظاہر تو غلام سرور کی جائیداد کا وہ تمسک ہے جس میں اُن کی خریدی ہوئی جائیداد کے اقرار نامے ہیں لیکن یہ کتاب دیگر تہذیبی حوالوں سے بھی اہم ہے۔ ضروری ہے کہ اس تاریخی مرقومہ پر بحث کرنے سے پہلے شخص منسوب بہ کتاب کا تعارف کیا جائے۔
’’حاجی غلام سرور لالا‘‘ حضرت زوردست صدیقی کے بیٹوں نورعلی، میرعلی اور قمر علی میں سے مؤخرالذکر کے فرزندارجمند تھے، جن کے تجارت پیشہ والد محترم اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ خالونہ (دیر) سے لگ بھگ 1880ء کو درشخیلہ آئے تھے۔ بڑے بھائی کا نام غلام حیدر تھا جبکہ چھوٹا بھائی عمر محمد تھا۔ ان کی تاریخ پیدائش معلوم نہیں ہے البتہ کتاب کے مطابق یہ اندازاً 1870-80ء کے درمیان ہوسکتی ہے۔ موصوف کی جس تاریخی کتاب کا ہم ذکر کرتے ہیں۔ اس کی ساخت عام کتابوں سے مختلف ہے۔ مثلاً پڑھنے کے دوران میں اس کے اوراق بائیں سے دائیں نہیں بلکہ نیچے سے اوپر کی طرف الٹائے جاتے ہیں۔ کتاب کی فی فرد لمبائی تین فٹ ہے، جسے تہہ در تہہ کیا جائے، تو حجم ایک فٹ بن جاتا ہے اور اگر کتاب کے دونوں پٹھے جلد اوراق سمیت کھول دیے جائیں، تو یہ چھے فٹ بن جاتی ہے، جسے یا تو اکڑوں بیٹھ کر پڑھا جاسکتا ہے یا کہنیوں، گھٹنوں اور ایڑیوں کے سہارے نیم دراز ہوکر لیٹنے سے۔ پہلے صفحے پر ’’فہرست جمعداری دفتر غلام سرور‘‘ درج ہے۔ بیع نامہ، دفتر اور خریدار و فروخت کنندہ کا اقرار نامہ باالترتیب اس کے بعد آتا ہے۔ طے شدہ معاملات کے آخر میں ہر معاملہ کے ساتھ تاریخ بھی موجود ہے۔ قوم ملاخیل سے خریدی ہوئی دفتر (دوتر) کے بارے میں اشتہار واجب الظہار درج ہے۔ مثلاً’’ تعداد دفتر دو دمڑی کم دو روپے در قوم ملاخیل مسمی غلام سرور و غلام حیدر را حساب شدہ بحضور جمع گواہان یعنی باچا صاحب، دارمئی خان و قوم ملاخیل بدست گوہر مرزا تحریر شدہ دس ماہ محرم بروز جمعہ۔‘‘ (سال ندارد)

کتاب یہ بھی واضح کرتی ہے کہ پشتو کے زمانے میں جائیداد دفتر شیخ ملی کی رو سے یوسفزئی پختونوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی خرید سکتے تھے۔ (Photo: Fine Art America)

یہ وہ جائیداد تھی جو ملاخیل میں الداد خیل، اُتمان خیل، سارو خیل، بابا خیل، میرخیل، میاں خان خیل اور قاسم خیل کے مختلف افراد سے خریدی تھی۔ اس کے بعد حسن خیل میں نقردین خیل، بازید خیل، بہادر خیل، صالح خیل، ولایت خیل اور خواجہ عمر خیل سے لیے گئے دفتر کا ذکر ہے، لیکن کتاب میں ٹوٹل زر خرید جائیداد کا ذکر موجود نہیں ہے۔ عام لوگ اُن کی جائیداد سات روپے بتاتے ہیں، لیکن کتاب کی رو سے یہ تین ساڑھے تین روپے سے زیادہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی اس کتاب میں ایک سیریٔ واقع برہ درشخیلہ کے علاوہ دیگر سیریٔ اور مدین و بحرین کی جائیداد کا ذکر موجود نہیں ہے۔ اس طرح یہ تحریر غمازی کرتی ہے کہ آخری سکونت (کلویغی) سے پہلے بھی برہ درشخیلہ وغیرہ میں ملاخیل اور حسن خیل سکونت (کلویغی) کرچکے ہیں۔
مذکورہ کتاب یہ بھی واضح کرتی ہے کہ پختو کے زمانے میں جائیداد دفتر شیخ ملی کی رو سے یوسفزئی پختونوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی خرید سکتے تھے۔ شنگ زرگر اور کچکول کٹانخیل سے خریدا گیا دفتر اس کی مثال ہے۔ اس طرح اکثر خان اور ملا صاحب اپنے گاؤں کے نام سے جانے جاتے تھے جیسے لنڈی ملک اور گامسیر ملا جبکہ کسب گر کی پہچان بھی حسبی تھی، مثلاً کچکول دھوبی، پردول پراچہ، موتم شاہ جالوان، مرسلین گجر، صدیق تیلی، محمد گل زرگر کی طرح سامری، ہٹی مار، دب گر اور نائی نام تھے۔ کتاب کے لگ بھگ 35 سالہ اندراجات میں اُس وقت کی اہم شخصیات بھی منظرِ عام پر آتی ہیں جیسے گلداد خان، شریف خان، شمسی خان، دارمئی خان، فیلقوس خان، خوشحال خان، دیر محمد خان اور سرباز خان وغیرہ۔ کتاب کے مندرجات سے اس زمانے کے رسم ورواج، قیمتوں اور زرمبادلہ کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ کتاب سب سے زیادہ ساکن چم برہ درشخیلہ کے غلام سرور صاحب کی سیاسی و سماجی حیثیت کو واضح کرتی ہے۔ آپ اپنے خاندان کے سرکردہ افراد ، غلام حبیب، غلام حسن، محمد علی اور مولانا جان محمد کے ہمدرد ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ زنون میاں، نشان میاں، غواص شاہ میاں اور امیر شمال وغیرہ جیسے معزز سادات کے بااعتماد دوست ہی نہیں تھے بلکہ بقول اختر سعید ایڈووکیٹ، سیٹھ اسماعیل جیسے تجارتی لوگوں کے ساتھ گہرے مراسم بھی رکھتے تھے۔ آپ کے تجارتی نیٹ ورک کو مدِ نظر رکھ کر میاں گل عبدالودود باچا صاحب سے آپ کے تعلقات کا بخوبی اندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ آپ کے خچروں کے تجارتی قافلے پر لنڈاکی چوکی میں راہداری معاف تھی۔ ایسا شاید باچا صاحب سے قریبی تعلقات کی وجہ سے تھا۔ قسمت کی دیوی آپ پر مہربان تھی۔ تبھی تو آپ کاکا روبار وسیع ہوتا چلاگیا اور آپ گرد ونواح میں ایک امیر تاجر کی حیثیت سے مشہور ہوئے، لیکن مثلِ ہر کمالے را زوالے، آپ کاکاروبار تنزلی کا شکار ہوا۔ چند وجوہات کی بنا پر باچا صاحب کے ساتھ آپ کے تعلقات خراب ہوئے۔ آپ کا سار مال بحق سرکار ضبط ہوا۔ آ پ کو قیدوبند کی صعوبتیں بھی اُٹھانا پڑیں۔ بقولِ فضل قوی حاجی صاحب آپ بڑی تیز وتند طبیعت کے مالک شخص تھے۔ اکثر مصلحت اور مصالحت پسِ پشت ڈال کر جذباتی انداز میں معاملات سلجھانے کی بجائے بگاڑتے تھے، جس کی وجہ سے اکثر اُن کا اپنا نقصان ہوتا تھا۔ قجیر خان وکیل صاحب فرماتے ہیں کہ شریف خان آف برتھانہ کے ساتھ ایک روپے دفتری قضیے میں آدھا دفتر گنوا دیا، مگر اپنے مؤقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے۔

کتاب کے لگ بھگ 35 سالہ اندراجات میں اُس وقت کی اہم شخصیات بھی منظرِ عام پر آتی ہیں جیسے گلداد خان، شریف خان، شمسی خان، دارمئی خان، فیلقوس خان، خوشحال خان، دیر محمد خان اور سرباز خان وغیرہ۔ (Photo: libertyclassicalacademy.org)

دوسری طرف وکیل خیرالحکیم حکیم زئی صاحب کا بیان ہے کہ باچا صاحب نے آپ سے بھاری جرمانہ نقد مال کی شکل میں خچروں پر لاد کر لیا لیکن اُن کے سامنے آپ کا اکڑ پن کم نہ ہوا۔ برہ درشخیلہ میں واقع گھر بار اور کچھ جائیداد تو چیندہ خورہ ملا صاحب نے واپس دلوا دی لیکن آپ نے ان کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ محمد طاہر صاحب بجا فرماتے ہیں کہ آپ ایک راست گو انسان تھے۔ اس لیے اصلی دولت آپ کی خودداری تھی۔ سچ ہے، آپ رشتہ داروں کا نہ صرف خیال رکھتے تھے بلکہ اُن کی دولت کی حفاظت کرنا اپنا اولین فریضہ سمجھتے تھے جیسا کہ بیدرہ میں اپنے ایک رشتہ دار کی غصب شدہ جائیداد کو آزاد کرایا تھا۔ آپ تجارت پیشہ خواجاؤں کے امیر تھے۔ مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے حجرہ پر اکثر مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ یہاں تک کہ ہندوستا ن کے ہندو تاجر بھی آپ کے مہمان ہوتے تھے جن کے لیے آپ نے گھر کی دوسری منزل پر کمرہ بنایا تھا۔ غرض یہ کہ آپ کی جائیداد کا بیشتر حصہ تو آپ کی زندگی میں ہی ختم ہوا تھا۔ بچی کھچی جائیداد آپ کے دونوں ازواج کے بیٹوں غلام بہادر اور عبدالاکبر کی اولاد میں تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزری۔ اب اگرچہ اس خاندان میں اتنی دولت کسی کے پاس باقی نہیں رہی جتنی غلام سرور لالا کے پاس تھی، لیکن اس خاندان میں مرنجِ مرنجاں طبیعت کے مالک عتیق الرحمان اور حیات محمد جیسوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ تعلیمی اور اخلاقی دولت سے مالا مال یہ پڑپوتے اپنی مثال آپ ہیں۔ علاوہ ازیں غلام سرور کے بڑے بھائی غلام حیدر کی اولاد میں سے طاہر استاد صاحب، محمد نثار، ڈاکٹر محمد ایوب، ڈاکٹر عمران طاہر اور عرفان طاہر جیسی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیات اس خاندان کی عظمت کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔

……………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔