بہت کم اہلِ سوات جانتے ہوں گے کہ ریاست سوات کے آخری ’’قاضئی القضا‘‘ یعنی چیف جسٹس کا تعلق کوکاریٔ سے ہے اور وہ ابھی تک بقیدِ حیات ہیں۔ آج کی نشست میں ان کی شخصیت سے پہلے ’’کوکاریٔ‘‘ کی تاریخی حوالہ سے مختصر سی گفتگو بے جا نہ ہوگی۔ غالباً آج سے تین سال پہلے فضل خالق صاحب کی معیت میں گاؤں کوکاریٔ میں ہم ’’شانگلو باغ‘‘ گئے تھے، جہاں کھیتوں کے درمیان ایک بڑے پتھر پر کئی صدیوں پرانے دو مجسمے آج بھی کندہ شدہ حالت میں موجود ہیں۔ فضل صاحب کی تحقیق کے مطابق ’’وادیٔ کوکاریٔ اور جامبل بدھ مت کے آخری دور میں پتھروں پر کندہ کاری کے لیے مشہور وادیاں تصور کی جاتی تھیں۔ جامبل میں تو اس مقصد کے حصول کے لیے باقاعدہ ورکشاپس بنائی گئی تھیں۔ یہاں باقی ماندہ دنیا سے بدھ مت کے پیروکار اس فن میں مہارت حاصل کرنے آیا کرتے تھے۔ کوئی بارہ مختلف جگہوں پر ہاتھ سے بنائے گئے مجسمے یہاں موجود تھے جنھیں لوگوں نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی کم علمی کی وجہ سے نقصان پہنچایا، لیکن ’’شانگلو باغ‘‘کے مجسمے آج سے دو تین سال پہلے نہایت اچھی حالت میں تھے۔‘‘ فضل صاحب کی تحقیق کے مطابق مذکورہ مجسمے بدھ مت کے ساتویں صدی عیسوی سے لے کر دسویں صدی عیسوی تک کے دور کی ترجمانی کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر یہ سوات میں بدھ مت کے آخری دور کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد سوات میں ہندو شاہی دور کا آغاز ہوتا ہے۔

سوات کے سینئر صحافی، محقق اور آثار قدیمہ کا وسیع مطالعہ رکھنے والے فضل خالق کا فائل فوٹو۔

فضل مولا زاہدؔ کے مطابق اسی بدھ مت دور میں ایک نواب ٹائپ آدمی کا نام ’’کوکا‘‘ تھا اور ’’ری‘‘ جگہ کو کہتے ہیں۔ سو اس کا مطلب’’نواب یا نوابوں کے رہنے کی جگہ‘‘ بنتا ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ بدھ مت کے نواب یہاں رہا کرتے تھے۔ زاہدؔ صاحب کے بہ قول ’’اس دعوے کا کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے۔بس سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی روایات اور باتوں میں سے ایک یہ بات بھی یہا کے لوگوں میں مشہور ہے۔‘‘ یہاں بدھ مت کے ساتھ ساتھ ہندو مت اور آخر میں سکھ مت کے پیروکار رہ چکے ہیں۔
زاہدؔ صاحب کے مطابق آج کل یونین کونسل کی آبادی اٹھائیس تیس ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ یہاں مختلف کچی پکی شکلوں میں چار ساڑھے چار ہزار گھر تعمیر ہوچکے ہیں۔یہاں لوگوں کے معاش کے دو ذرایع ہیں۔ ایک زراعت اور دوسرا مال مویشی۔ زراعت میں یہاں ہر قسم کا پھل اور سبزی پیدا ہوتی ہے۔ پھلوں میں شفتالو یہاں کا خاص پھل ہے۔ اس سے پہلے یہاں وافر مقدار میں سیب پیدا ہوتا تھا۔ یہاں کے آرگینک فروٹس جن میں جاپانی پھل (املوک)، ناشپاتی اور اس خاندان کی دیگر اقسام (ٹانگو، خان ٹانگو، بٹنگ وغیرہ)خاص مشہور ہیں مگر بدقسمتی سے یہ بڑی تیزی سے معدومیت کی طرف گامزن ہیں۔ محکمۂ زراعت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ زاہد صاحب کے بہ قول: ’’اگر ہم نے مذکورہ اور اس قبیل کے دیگر پھلوں کو معدوم ہونے سے بچایا، تو آئندہ آٹھ دس سالوں میں بین الاقوامی مارکیٹ میں ہماری ان اشیاء کی بڑی مانگ ہوگی۔‘‘

شانگلو باغ کوکارئی کے یہ مجسمے بدھ مت کے ساتویں صدی عیسوی سے لے کر دسویں صدی عیسوی تک کے دور کی ترجمانی کرتے ہیں (Photo: The Express Tribune)

اب آتے ہیں ریاست سوات کے آخری قاضئی القضاء بزرگوار ’’ قاضی غفران الدین‘‘ کی طرف۔ ان سے ملاقات کے وقت ہماری ٹیم استاد محترم فضل ربی راہیؔ، فضل خالق صاحب، نیاز احمد خان اور راقم پر مشتمل تھی۔ اس موقع پر فضل مولا زاہدؔ صاحب نے اپنے چچا زاد ڈی ایس پی (ر) جہانگیر خان کے ساتھ مل کر ہماری مہمان نوازی کا حق بھرپور طریقے سے ادا کیا۔ اس نشست میں جو کچھ میرے پلے پڑا وہ نذر قارئین ہے۔
بزرگوار قاضی غفران الدین نے سنہ انیس سو چوبیس کو مینگورہ کے نواحی علاقہ نوے کلی میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم ہائی اسکول ودودیہ (سیدو شریف) سے حاصل کی۔ بارہ سال کی عمر (غالباً سنہ انیس سو پینتیس) میں گاؤں کوکاریٔ شفٹ ہوئے۔ سنہ انیس سو چھتیس کو ساتویں جماعت میں تھے کہ دینی علم کے حصول کی خاطر دہلی چلے گئے۔ ’’دارالعلوم فتح پوری‘‘ میں پورے آٹھ سال گزارے جہاں مفتی کفایت اللہ سے کسب فیض کیا۔ آپ سنہ انیس سو پینتالیس عیسوی کو تحصیل علم کے بعد واپس سوات آئے۔ کہتے ہیں کہ ’’سال ڈیڑھ سال مجھے کوئی روزگار نہ ملا۔ میرے والد بزرگوار کا چوں کہ بادشاہ صاحب کے ساتھ پختو دور سے ایک اچھا تعلق رہا تھا، اس لیے بادشاہ صاحب کی سفارش پر والئی سوات نے مجھے ہائی اسکول نمبر ایک بنڑ میں ملازمت دلوائی۔ اس وقت ابھی مذکورہ اسکول نیا نیا تعمیر ہوا تھا اور اس میں پڑھائی شروع ہونے میں دو مہینے باقی تھے۔ میری تن خواہ 75روپیہ مقرر کی گئی مگر میں اس نوکری سے خوش نہیں تھا۔ اس لیے مجھے محکمۂ قضا میں بھیجا گیا۔ ان ادوار میں ہر تحصیل میں محکمۂ قضا ہوا کرتا تھا، جنھیں ایک جگہ سے کنٹرول کیا جاتا تھا۔ مجھے اس کنٹرول کرنے والی جگہ میں بٹھایا گیا۔ وہاں میرے علاوہ دو اور قاضی بھی تھے اور ایک ہمارے بڑے تھے جنھیں آپ ’’قاضئی القضا‘‘ یعنی چیف جسٹس کہہ سکتے ہیں۔ یہ سنہ انیس سو چھیالیس سنتالیس کا دور ہوتا ہوگا۔ ان ادوار میں جس کو کوئی شکایت ہوتی تھی، وہ والی صاحب کو چھٹی لکھ کر آگاہ کیا کرتے تھے۔ والی صاحب کیس ہمیں ریفر کرکے تلقین کرتے کہ شریعت کی رو سے فیصلہ سنایا جائے۔ ان ادوار میں اک آدھ سیاسی فیصلے کے علاوہ تمام تر فیصلے شریعت کی رو سے کیے جاتے تھے جب کہ سیاسی فیصلہ والی صاحب خود سنایا کرتے تھے۔ یہ بات مشہور کی گئی ہے کہ ریاستی دور میں فیصلے رواج اور شریعت کا ملغوبہ ہوا کرتے تھے لیکن ایسا صرف بادشاہ صاحب کے دور میں تھا۔ والی صاحب کے دور میں اک آدھ سیاسی فیصلے کے علاوہ تمام تر فیصلے شریعت کی رو سے کیے جاتے تھے۔ ان فیصلوں کے لیے باقاعدہ قاضیوں کی ایک ٹیم ہوا کرتی تھی۔‘‘

قاضی غفران الدین نے سنہ انیس سو چوبیس کو مینگورہ کے نواحی علاقہ نوے کلی میں آنکھ کھولی۔

قاضی غفران الدین عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف بھی کیا کرتے تھے۔ آپ کی تالیف کردہ مشہور کتابوں میں سے بارہ سو عربی اشعار پر مبنی ایک کتاب کی شرح، دیوان حافظ الپوریٔ کی شرح اور ایک مشکل عربی گرائمر کی شرح شامل ہے۔ اس کے علاوہ قرآن شریف کی سترہ جلدوں پر مشتمل ایک تفسیر آپ کی تصنیف ہے جس کا نام ترجمان القرآن تجویز کیا گیا ہے۔ یہ تفسیر زیور طبع سے آراستہ ہونے کے لیے کب سے منتظر ہے۔ اس پر یہی کوئی بارہ لاکھ روپیہ خرچہ اٹھتا ہے اور مذکورہ رقم بہ قول قاضی صاحب کے ان کی استطاعت سے باہر ہے۔ میراث کے مسائل پر آپ کی ایک کتاب زیر طبع ہے۔ اس کے علاوہ آپ کی ایک اور کتاب قرآن شریف کے مشکل الفاظ کا اردو اور پختو زبان میں ترجمہ پر بھی مشتمل ہے۔
قاضی غفران الدین کے بہ قول والی صاحب کے دور حکومت میں ریاست سوات میں کل چوبیس قتل ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں زیادہ تر کوہستان میں ہوئے تھے، ہمارے علاقوں میں بہ مشکل پانچ یا چھ قتل ہوئے ہوں گے۔
اپنی یادوں کی گٹھڑی کو کھولتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ بادشاہ صاحب کے ساتھ ہم تمام قاضی کالام کی سیر کے لیے جا رہے تھے کہ راستہ میں ایک کوہستان کا رہائشی سڑک میں کھڑا پایا گیا۔ بادشاہ صاحب نے لاری روکنے کا حکم دیا اور اس شخص مخصوص سے پوچھا کہ سڑک میں کیوں کھڑے ہو؟ اس نے جواباً کہا کہ جناب والا! میں نے نمک خریدا تھا، سوچا اسے بیچ کر دو چار پیسے جوڑ لوں گا، مگر طویل مسافت کی تھکن اتارنے ایک جگہ آرام کرنے کی غرض سے بیٹھ گیا، جہاں پتا نہیں کس وقت میری آنکھ لگ گئی اور بیدار ہونے پر پتا چلا کہ نمک وہاں نہیں ہے۔ بادشاہ صاحب نے اسی وقت علاقہ کے تحصیل دار کو حکم دیا کہ اس کے چوری شدہ پچاس کلو (دس دڑیٔ) نمک کی بہ جائے ساٹھ کلو (یولس دڑیٔ) دیا جائے۔ اور ساتھ یہ حکم بھی صادر فرمایا کہ چوری کی جگہ کے ’’مَلَک‘‘ کو کہا جائے کہ اگر صبح صادق سے پہلے پہلے چور کی نشان دہی نہیں کی گئی، تو اس سے اس کی ’’مَلَکی‘‘ واپس لی جائے گی۔ نتیجتاً اگلی صبح وقت مقررہ سے پہلے پہلے چور کو پکڑ کر حاضر کیا گیا تھا۔

قاضی غفران الدین۔

قاضی صاحب کہتے ہیں کہ ان ادوار میں قتل کا فیصلہ یوں کیا جاتا تھا کہ مدعی یا مدعا علیہ دو دن کی مہلت لیا کرتے تھے۔ دو دن بعد مدعی دعویٰ کرتاتھا اور مدعا علیہ اپنی صفائی پیش کرتا تھا۔ اکثر گواہوں کی پیشی میں ہفتہ تک وقت لیا جاتا تھا۔ اس کے بعد ہم شریعت کی رو سے فیصلہ سنایا کرتے تھے۔قصاص کا عمل فیصلے کے فوراًبعد تکمیل تک پہنچتا تھا۔ کسی فیصلہ میں والی صاحب نے خود بیٹھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس طرح اگر ہمارے فیصلے سے کوئی خوش نہ ہوتا، تو والی صاحب اسے دارالعلوم جانے کا کہتے، جہاں خان بہادر المعروف مارتونگ مولوی صاحب فیصلے پر نظر ثانی فرماتے تھے۔ ان ادوار میں دیوانی مقدمات زیادہ ہوا کرتے تھے اور ہم چھ سے لے کر آٹھ بڑے فیصلے روزانہ کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑے، روپے پیسے کے معاملات اور اس قبیل کے دیگر چھوٹے بڑے فیصلے چالیس سے پچاس ہو جایا کرتے تھے۔
قاضی صاحب کے بہ قول: ’’بادشاہ صاحب دعویٰ کیا کرتے تھے کہ کوہستان (ریاست سوات کی آخری حد) سے ایک عورت زیورات سے لدی پھندی اکیلے سفر پر نکلے، اگر ’’لنڈاکی‘‘ تک کسی نے اس کی طرف محض آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت کی، تو میں بادشاہت سے دست بردار ہوجاؤں گا۔‘‘
کہتے ہیں کہ ایک روز بادشاہ صاحب سیر کی غرض سے نکلے تھے کہ راستہ میں فتح خانخیل پختونوں کا بٹوارہ ہو رہا تھا۔ بادشاہ صاحب کو بٹوارے میں فریقین کے لڑنے کی اطلاع ملی۔ بادشاہ صاحب جائے واردات پر پہنچے تو دیکھتے ہیں کہ دلبر کے ہاتھوں گل نبی کا قتل ہوا تھا۔ بادشاہ صاحب نے اسی وقت حکم صادر کیا کہ ’’دلبر بھاگنے نہ پائے، اگر موقعہ پر گل نبی کا کوئی ہے، تو اسے بندوق تھما دی جائے اور بدلے کے طور پر اس کے ہاتھوں دلبر کی زندگی کا چراغ گل کیا جائے۔ بصورت دیگر کسی سپاہی کے ہاتھوں دلبر کو ابھی کے ابھی ٹھنڈا کیا جائے۔‘‘
قاضی صاحب کے بہ قول والی صاحب کے دور میں سپہ سالار کی تن خواہ دو سو روپیہ مقرر تھی اور یہی بہ حیثیت قاضئی القضاء میری بھی تنخواہ تھی۔ ریاست کے پاکستان میں ادغام کے بعد آپ دس سال تک مختلف قاضیوں کے معاون رہے۔
ریاست کے خاتمہ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سیف الملوک صدیقی جو کہ والی صاحب کے مشیر تھے، ریاست کے خاتمہ میں انھوں نے بھی کردار ادا کیا۔ ’’دراصل سیف الملوک صدیقی کے بھائی جماعت اسلامی کے سرگرم رکن تھے، ان ادوار میں سیاسی سرگرمیوں پر سخت پابندی تھی۔ والی صاحب جماعت اسلامی کو نہیں مانتے تھے اور جماعت اسلامی والی صاحب کو۔ اسی کشمکش میں والی صاحب اور سیف الملوک صدیقی کے درمیان ان بن بھی ہوئی تھی۔‘‘
کہتے ہیں کہ بادشاہ صاحب کے دور حکومت میں دفتری زبان پختو تھی۔ پھر جب والی صاحب نے اقتدار سنبھالا، تو پختو کو ہی دفتری زبان رہنے دیا۔ تمام خط و کتابت، درخواست، عرضی وغیرہ کے لیے پختو زبان استعمال کی جاتی تھی۔

بادشاہ صاحب کے دور حکومت میں دفتری زبان پختو تھی۔

کہتے ہیں کہ والی صاحب کی دلی آرزو تھی کہ وہ سوات کو سویٹزر لینڈ کی طرح خوب صورت بنائیں گے۔ یہ اظہار وہ ہر جگہ کیا کرتے تھے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ سڑکوں کے ساتھ گھر تعمیر کرنے والوں کو ایک باقاعدہ خوب صورت نقشہ پر تعمیرات کرنے کی تاکید کیا کرتے تھے۔ ’’میں جب کوکاریٔ میں اپنے گھر کو تعمیر کر رہا تھا، تودیواروں کو اونچا کرنے کی غرض سے اس پر چق لگائے۔ والی صاحب کا ایک دن یہاں سے گزر ہوا، انھوں نے دیواروں پر چق لگانے کی وجہ پوچھی۔ میں نے عرض کیا کہ جناب والا! میں اپنے گھر کے آگے حجرہ تعمیر کرنا چاہتا ہوں۔ باقی کام تیار ہے بس لکڑی کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ لکڑیاں میری جیب میں ہیں؟ میں نے برجستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ نہیں صاحب، لکڑیاں آپ کے منھ میں ہیں (یعنی اس حوالے سے آپ کی اجازت درکار ہے)۔ انھوں نے بھنویں سکیڑتے ہوئے کہا کہ سمجھا نہیں۔ میں نے کہا کہ ’’زڑے چینہ‘‘ کے ساتھ بڑے بڑے چینار کے درخت ہیں، آپ حکم صادر فرمائیے کہ انھیں میرے لیے کاٹ دیا جائے۔ انھوں نے اسی وقت حکم صادر کردیا اور یوں میرے گھر کے سامنے ایک خوب صورت حجرہ تعمیر ہوا۔‘‘

……………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔